جب ایک بڑے زلزلے کے نتیجے میں ہزاروں اموات، پورے شہر تباہ اور لاکھوں افراد کو فوری مدد کی ضرورت پڑی تو، ترکی پہلے ہی افراط زر سے نبرد آزما تھا اور اپنی معیشت کو زندہ رکھنے خاطر مالی اعانت کے لیے اس کا انحصار امیر اتحادیوں پر تھا۔
اے ایف پی کے مطابق اب ترکی کو چھ فروری کے زلزلے سے تباہ ہونے والے 11 جنوب مشرقی صوبوں کی تعمیر نو پر اربوں ڈالر خرچ کرنے ہوں گے، جو سلطنت عثمانیہ کے بعد کی تاریخ کی بدترین تباہی ہے۔
یہ رقم ان اربوں ڈالر کے انتخابی وعدوں سے بھی زیادہ ہوگی جو صدر رجب طیب اردوغان نے 14 مئی کو ہونے والے اہم انتخابات سے قبل کیے تھے۔
یہ تمام نقد رقم صارفین کے اخراجات اور صنعتی پیداوار کو ٹربو چارج کر سکتی ہے، جو اقتصادی ترقی کے دو اہم اشارے ہیں۔
تاہم اردوغان کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ ترکی کے پاس فنڈز بہت کم ہیں۔
مرکزی بینک کے ختم ہوتے خزانے کو روس سمیت تیل کی دولت سے مالا مال ریاستوں کی مدد سے بھرا گیا، جس کے بعد ترکی گذشتہ چند برسوں میں لیرا کو اٹھانے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کرنے میں کامیاب ہوا۔
لیکن ماہرین اقتصادیات کا خیال ہے کہ یہ پیسے ترکی کے مالی حالات اور بحران زدہ لیرا کو صرف مئی کے انتخابات تک ہی سنبھال سکتے ہیں۔
ایک معروف کاروباری گروپ کے اندازے کے مطابق اب اردوغان کو زلزلے سے ہونے والا 84.1 ارب ڈالر کا نقصان بھی پورا کرنا ہے۔
دیگر ماہرین کے اندازے زیادہ محتاط ہیں، جو مجموعی طور پر 10 ارب ڈالر کے قریب ہیں۔
تعمیر نو میں اضافہ
انتخابات کو مدنظر رکھتے ہوئے اردوغان پہلے ہی وعدہ کر چکے ہیں کہ وہ ایک سال کے اندر لاکھوں متاثرہ افراد کو نئے گھر فراہم کریں گے۔
اگر انہیں نقد رقم گئی، جس کا زیادہ انحصار غیرملکی عطیہ دہندگان پر ہے، تو اردوغان کو اس کا زیادہ تر حصہ تعمیراتی شعبے کے لیے مختص کرنا پڑے گا تاکہ ترکی کے کچھ حصوں کی تعمیر نو کی جا سکے۔
اگرچہ اب ٹھیکیداروں پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے ناقص معیارات اپنائے جس کی وجہ سے بہت سی عمارتیں منہدم ہو گئیں، لیکن اردوغان نے ہوائی اڈوں، سڑکوں اور ہسپتالوں سمیت ملک کے زیادہ تر حصے کو جدید بنانے کے لیے اسی شعبے پر انحصار کیا تھا۔
یورپی بینک برائے تعمیر نو و ترقی (ای بی آر ڈی) نے کہا ہے کہ ’تعمیر نو کی سرگرمیوں سے پیداوار میں اضافے سے معاشی سرگرمیوں میں خلل کے منفی اثرات کو بڑی حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔‘
مجموعی معیشت کے لیے کم از کم امید کی کرن تو موجود ہے۔
متاثرہ حصے کا شمار ترکی کے سب سے کم ترقی یافتہ علاقوں میں ہوتا ہے، جس کا حصہ مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) میں صرف نو فیصد ہے۔
لیکن ترکی کی زرعی پیداوار متاثر ہو سکتی ہے۔ انقرہ کی ٹی او بی بی ای ٹی یو یونیورسٹی میں معاشیات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اونے تامگاک نے کہا کہ یہ خطہ ترکی کی کل زراعت، ماہی گیری اور جنگلات کی پیداوار کا 14.3 فیصد پیدا کرتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ خطہ خوبانی جیسی خوراک کا عالمی برآمد کنندہ ہے، اور متنبہ کیا کہ قیمتوں پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت نے ترکی اور شام میں خوراک کی بنیادی پیداوار میں خلل کے متعلق خبردار کیا ہے۔
1999 سے بہتر؟
پروفیسر اونے تامگاک نے مزید کہا کہ زلزلے سے توانائی کی سہولیات، بنیادی ڈھانچے، نقل و حمل، آبپاشی اور لاجسٹکس کو بھی نقصان پہنچا۔
رہنمائی کے لیے تاریخ پر کچھ نظر ڈالتے ہیں۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر محمود محی الدین نے کہا کہ 7.8 شدت کے زلزلے سے معیشت کا نقصان 1999 میں آنے والے 7.6 شدت کے زلزلے سے کم ہو سکتا ہے، جس میں 17 ہزار سے زائد اموات ہوئی تھیں۔
بعد ازاں آئی ایم ایف کے ترجمان نے کہا کہ محی الدین انفرادی حیثیت میں بات کی اور فنڈ کے سرکاری نقطہ نظر کی نمائندگی نہیں کر رہے تھے۔
1999 میں ترکی کی معیشت مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کے تقریبا 0.5 سے 1.0 فیصد تک کمزور ہوئی تھی۔ لیکن اس زلزلے نے ملک کے صنعتی مرکز کو متاثر کیا، جس میں اقتصادی پاور ہاؤس استنبول بھی شامل ہے۔
ای بی آر ڈی نے کہا کہ معیشت تیزی سے بحال ہوئی، تاہم تعمیر نو کی کوششوں کی بدولت 2000 میں جی ڈی پی کے 1.5 فیصد کی شرح سے بڑھی۔
ٹینیو کنسلٹنسی کے تجزیہ کار وولفانگو پکولی نے کہا کہ گذشتہ ہفتے آنے والے زلزلے نے ’غیر ملکی سیاحوں کے پسندیدہ مغرب کے علاقوں کو بھی متاثر نہیں کیا، جو ترکی کے غیر ملکی زرمبادلہ کے سب سے اہم ذرائع میں سے ایک بن گئے ہیں۔‘
مستقبل کے مسائل
قابل توجہ بات یہی ہے کہ اردوغان کو تعمیر نو پر خرچ کرنے کے لیے نقد رقم کہاں سے ملے گی۔
یلووا یونیورسٹی میں معیشت کے ایسوسی ایٹ پروفیسر باکی دیمیرل کے مطابق ’چونکہ ترکی کی درآمدات اب بڑھیں گی، تو ظاہر ہے کہ غیر ملکی کرنسی کی ضرورت ہوگی۔‘
ترکی کا قومی قرض نسبتا کم ہے، جس کا مطلب ہے کہ حکومت کے پاس طویل مدتی قرض جاری کرنے کا کچھ راستہ ہے۔
دوسری طرف، غیر ملکی سرمایہ کاروں نے اردوغان کے غیر روایتی معاشی نظریات کی وجہ سے ترکی سے دوری اختیار کر لی ہے۔ ان نظریات میں شرح سود میں کمی کرکے افراط زر سے لڑنے کی کوشش بھی شامل ہے۔
جب زلزلہ آیا تو ترکی کی سالانہ افراط زر کی شرح دو دہائیوں کی بلند ترین سطح 85 فیصد سے کم ہو کر گذشتہ برس 58
فیصد ہو گئی تھی۔
ماہر معاشیات مرات کوبیلے نے آن لائن ایک نوٹ میں لکھا، ’غیر یقینی صورتحال اور مختلف عوامل، جیساکہ عالمی معاشی حالات اور داخلی سیاسی توقعات، کے باوجود ترک معیشت کے جمود کا شکار ہونے یا اپنی قدرتی شرح سے کم بڑھنے کا امکان ہے۔‘