امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ وہ امریکہ کی فضائی حدود میں چین کا مبینہ جاسوس غبارہ مار گرانے پر کوئی معافی نہیں مانگیں گے۔
انھوں نے الزام لگایا کہ چین جاسوسی کے لیے اس غبارے کو استعمال کر رہا تھا۔ تاہم ان کے مطابق شمالی امریکہ میں مار گرائے گئے تین دیگر اجسام ممکنہ طور پر کسی ملک کی جانب سے جاسوسی کے لیے استعمال نہیں ہو رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ فضا میں ایسے اجسام کی نشاندہی کے لیے اپنا نظام بہتر بنائے گا۔
جو بائیڈن نے یہ بھی کہا کہ وہ اس معاملے پر جلد چین کے صدر شی جن پنگ سے بات چیت کریں گے۔
وائٹ ہاؤس میں جمعرات کو امریکی صدر نے کہا کہ ’ہم اس معاملے کی تہہ تک پہنچیں گے۔ تاہم میں غبارہ گرانے پر کوئی معافی نہیں مانگوں گا۔‘
چین نے اس الزام کی تردید کی ہے کہ اس غبارے کو جاسوسی کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا۔ چین کے مطابق اسے موسم سے متعلق معلومات جمع کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا اور یہ اپنے راستے سے بھٹک گیا تھا۔
ادھر بائیڈن نے چینی غبارے کے بارے میں امریکہ کے مؤقف کو دہرایا ہے کہ یہ جاسوسی کے کام پر مامور تھا۔ یہ غبارہ بحر اوقیانوس کے اوپر 40 ہزار فٹ کی بلندی پر تھا جب اسے امریکی جنگی طیارے نے مار گرایا۔
تاہم بائیڈن نے کہا کہ امریکہ اس معاملے پر چین سے بات چیت کے لیے تیار ہے۔ ’ہم کوئی نئی سرد جنگ نہیں چاہتے۔‘
امریکہ نے سنیچر کے روز اس چینی غبارے کو اس وقت مار گرایا تھا جب وہ اس کی سمندری حدود کے اوپرمحوِ پرواز تھا
بائیڈن کے بیان نے نئی سوالوں کو جنم دیا
انتھونی زرچر، نامہ نگار، شمالی امریکہ
جو بائیڈن پر دباؤ ہے کہ وہ عوامی سطح پر چین کے مبینہ جاسوس غبارے اور تین دیگر نامعلوم اجسام پر براہ راست بات کریں جنھیں امریکی جنگی طیاروں نے گذشتہ ہفتے مار گرایا۔
جمعرات کی شب انھوں نے ایسا ہی کیا تاہم یہ مختصر گفتگو ناقدین کو خاموش نہ کر سکی جو مزید معلومات اور وضاحت چاہتے ہیں۔
انھوں نے غبارے اور نامعلوم اجسام کی ساخت پر بات کی تاہم کوئی نئی معلومات نہ دی۔ انھوں نے یہ بھی نہیں بتایا کہ چینی غبارے کی نشاندہی کب کی گئی یا اس کا اصل مقصد کیا تھا۔
حالیہ اطلاعات میں بتایا گیا کہ یہ امریکی جزیرے گوام کی طرف جا رہا تھا تاہم اس کا راستہ تبدیل ہوگیا۔ انھوں نے یہ بھی نہیں بتایا کہ گذشتہ ہفتے کے واقعات کے بعد کسی نئی ہدف کا تعاقب کیوں نہیں کیا گیا۔
اسے وضاحت کی نظر سے دیکھا جائے تو اس میں کوئی نئی بات نہیں۔ اور تعلقات عامہ کی کوشش کے لحاظ سے یہ ناکافی ہے۔
شاید اس سے کچھ دیر کے لیے اطمینان ملے تاہم اگر دوبارہ امریکی فضا میں غبارے اڑتے دیکھے گئے یا جنگی طیاروں نے ان پر میزائل داغے تو پھر سے ان سوالوں کا نئے جذبے کے ساتھ جنم ہوگا۔
معمولی چیزوں کو مار گرانے کے لیے ’مہنگے فوجی آپریشن‘ پر بحث
الاسکا، شمال مغربی کینیڈا اور مشیگن میں گرائے گئے نامعلوم اجسام پر بات کرتے ہوئے بائیڈن نے کہا کہ انٹینیلجنس کمیونٹی کا خیال تھا کہ ’یہ ممکنہ طور پر غبارے ہی ہیں جو نجی و تفریحی کمپنیوں اور تحقیق کی تنظیموں کی جانب سے اڑائے گئے۔‘
بائیڈن کے بیان نے اس بات کا امکان ظاہر کیا کہ امریکہ نے لاکھوں ڈالر کے فوجی سامان کے ذریعے معمولی چیزوں کو تباہ کیا جو لوگ اپنے شوق سے اڑا رہے تھے۔
امریکی ایوان نمائندگان کے رکن جِم ہائمز، جنھیں قومی سلامتی کے امور پر بریفننگ ملتی ہے، نے رواں ہفتے کہا تھا کہ یہ امریکی پالیسی نہیں ہونی چاہیے کہ آسمان میں اڑتی ہر چیز کے خلاف فائٹر جیٹ استعمال کیے جائیں۔
انھوں نے این پی آر کو بتایا کہ ’ایک غبارے کو مار گرانے کے لیے فوجی مشن بڑی مہنگی چیز ہے۔ ہمیں اس بارے میں گہرائی سے سوچنا ہوگا۔‘
بائیڈن نے کہا ہے کہ چینی غبارے کے واقعے کے بعد جدید ریڈار کے استعمال سے ہی شاید آسمان میں تین نئی چیزوں کی دریافت ممکن ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اسی لیے میں نے اپنی ٹیم کو ہدایت دی کہ مجھے مزید بہتر اصول لا کر دیں کہ مستقبل میں کیسے نامعلوم اجسام سے نمٹنا جائے۔ تاکہ ممکنہ طور پر خطرے کا باعث بننے والی چیزوں کی نشاندہی ہوسکے۔‘
اس سے قبل وائٹ ہاؤس نے بتایا تھا کہ یہ اجسام خلا سے آنے والی کوئی نامعلوم اڑن طشتری نہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ آہستہ چلنے والی نامعلوم اجسام ’زمین پر لوگوں کے لیے براہ راست باعث خطرہ نہیں‘ مگر انھیں سلامتی اور پروازوں کے تحفظ کے لیے تباہ کیا گیا۔
تباہ شدہ اجسام کے ملبے کی تلاش پر مامور کینیڈا کے حکام نے بتایا کہ دریائے ہارٹن میں سرچ آپریشن روکا گیا ہے کیونکہ ملبہ ملنے کا امکان کم ہے۔
اس سوال پر کہ کیا امریکہ دوبارہ ایسا قدم اٹھائے گا، بائیڈن نے کہا کہ ’کوئی غلط سوچ نہ رکھے۔ اگر کوئی چیز امریکہ شہریوں کے لیے باعث خطرہ بنے گی تو میں اسے مار گراؤں گا۔‘
این بی سی نیوز کو دیے انٹرویو میں انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کب چینی صدر سے بات کریں گے۔ ’میرا خیال ہے کہ شی جن پنگ یہ نہیں چاہیں گے کہ امریکہ اور میرے ساتھ تعلقات خراب ہوں۔‘
چینی حکام نے کہا تھا کہ امریکہ کو غلط تاثر اور غلط فیصلوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔