فاروق ایچ نائیک نے سپریم کورٹ میں دوبارہ سماعت شروع ہونے پر آگاہ کیا کہ پیپلز پارٹی سے مشاورت ہوئی ہے ، قیادت کا کہناہے کہ انتخابات کی تاریخ دینا سیاسی جماعتوں کا کام نہیں ہے ۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبر پختون خوا انتخابات از خود نوٹس کی سماعت وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہو ئی تو فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی قیادت سے مشاورت ہوئی ہے ۔ قیادت کاکہناہے کہ انتخابات کی تاریخ دینا سیاسی جماعتوں کا کام نہیں ہے ، مسلم لیگ (ن) کے وکیل منصور اعوان نے کہا کہ حکومتی اتحاد نے تاریخ پر مشاورت کی ہے ، حکومتی اتحادی جماعتوں میں بلوچستان کی سیاستی جماعت کی قیادت بھی ہے ، پی پی کی قیادت اور مسلم لیگ (ن) کے اندر بھی مشاورت ہونا ہے ، مشاور کیلئے مزید وقت درکارہے ، عدالت قانون کے مطابق کارروائی کو آگے بڑھائے ۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ صدر نے الیکشن کی تاریخ وزیراعظم کی ایڈوائس کے بغیر دی ہے ، بغیر ایڈوائس الیکشن کی تاریخ دینا خلاف آئین ہے،صدر نے الیکشن کمیشن سے بھی مشاورت نہیں کی ،
اس سے قبل سپریم کورٹ نے حکومت اور پی ٹی آئی کو مشاورت سے ایک تاریخ دینے کا مشورہ دیاہے دیتے ہوئے کہا کہ آپ اپنی لیڈر شپ سے معلوم کریں کہ وہ بات چیت کیلئے تیار ہیں یا نہیں سیاسی جماعتیں اپنی لیڈروں سے یہ بھی پوچھیں کہ انتخابات کی تاریخ کسے دینی ہے ۔، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم فیصلہ کر بھی دیں تو مقدمہ بازی چلتی رہے گی ،مقدمہ بازی عوام اور سیاستی جماعتوں کیلئے مہنگی ہو گی ،کوئی بھی آئینی ادارہ انتخابات کی مدت نہیں بڑھا سکتا، عدالت کے علاوہ کسی کو انتخابی مدت بڑھانے کا اختیار نہیں ہے ،ٹھوس وجوہات کاجائزہ لے کر ہی عدالت حکم دے سکتی ہے ،معاشی مشکلات کا ذکر 1988 کے صدارتی ریفرنس میں بھی تھا ،آرٹیکل 254 وقت میں تاخیر پر پردہ ڈالتا ہے ،قدرتی آفات یا جنگ ہو تو آرٹیکل 254 کا سہارا لیا جا سکتاہے ،الیکشن بروقت نہ ہوئے تو استحکام نہیں آئے گا، حکومت کی نیک نیتی پر کوئی سوال نہیں اٹھا رہے ، پہلی بار ایسی صورتحال ہے کہ کنٹینر کھڑے ہیں لیکن زرمبادلہ نہیں ،آج صرف تاریخ طے کرنے کا معاملہ دیکھنا ہے، اگر 90 روز سے تاخیر والی تاریخ آئی تو کوئی چیلنج کر دے گا۔
جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نگران حکومت گورنر نے بنائی تو الیکشن کی تاریخ کیوں نہیں دینی ۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ گورنر اور الیکشن کمیشن سے پوچھیں گے الیکشن کی تاریخ کیوں نہیں آئی؟ عدالت آئین کو دوبارہ تحریر نہیں کر سکتی۔
فواد چوہدری نے عدالت میں کہا کہ ہم پارلیمنٹ میں جا کر ترمیم کرنے کیلئے تیار ہیں، انتخابات کی تاریخ کیلئے عدالت سے فیصلے کی روایت بنائی گئی تو مستقبل کیلئے ٹھیک نہیں ہو گی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے فوادچوہدری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ بے فکر رہیں، اس کو روایت نہیں بننے دیں گے