کئی دریا ہیں جو پاکستان میں جنم لے کر بھارت داخل ہوتے ہیں اور دوبارہ کسی اور مقام سے پاکستان میں داخل ہو کر سندھو میں ہی گرتے ہیں 

 مصنف:شہزاد احمد حمید

ہم اسکردو پہنچے ہیں۔اس کی اہمیت کے ٹو چوٹی کو سر کرنے کی خواہش لئے دنیا بھر سے آنے والے کوہ پیماؤں یا دلکش جنت نظیر شنگریلہ جھیل کی بدولت ہے۔اسے تبت خورد بھی کہتے ہیں۔ پہاڑوں کے بیچ پیالہ نما جگہ، ماضی کی یہ اہم بستی  بلتستان کا صدر مقام اورآج کا بڑا شہر ہے جو سیا حتی جنکشن بن چکا ہے۔میں سیدھا اس فوجی ڈاک بنگلہ پہنچا ہوں جہاں میرے نین، نین سے ملنے، اسے گلے لگانے کو بے چین ہیں۔ اسے دیکھتے ہی میرے منہ سے بے ساختہ نکلا؛”میں آج ایک ماہ بعد خود سے مل رہا ہوں“ اور اسے گلے لگا لیا ہے۔ بہت زور سے بہت محبت سے۔ ہم تب تک یونہی گلے لگے رہے جب باس کی آواز نہ آئی؛”میاں! بہت ہو گیا۔“ اس سے مل کر میرے جسم و جان میں خوشی چمک اور دمک کی لہر اتر آئی ہے۔ اس کا معصوم چہرہ، کھلتا ہوا گورا رنگ، کندھوں سے نیچے لٹکتی سنہری ناگن زلفیں، بل کھاتی کمر، چمک دار مگر دیکھنے والے کو خیرہ کر دینے والی آنکھیں۔ حسن اور شائستگی کا امتزاج۔ کبھی سنجیدہ اور رنجیدہ تھیں اب چلبلی ہیں۔ پہاڑوں پر جانا، بارش میں بدن بھگونا،اچھی خوشبو لگانا، عمدہ لباس پہننا اسے پسند ہے۔ زندگی سے بھر پور بھی مگر زندگی سے دور بھی۔کبھی نین نے زندگی کسی کے سپرد کی تھی آج زندگی خود اس کی محتاج ہے۔ 

 میں اپنے دوست سندھو کی آواز پر پھر سے متوجہ ہوا ہوں۔”جان یار! کچھ سکردو کے بارے سنو۔سکردو بھی کمال جگہ ہے۔سطح سمندر سے ساڑھے سات ہزار(7500) فٹ یا دوہزار دو سو چھبیس،(2226)  میٹر بلند20 میل لمبی اور 8 میل چوڑی وادی، گرمیوں میں سخت گرم، سردیوں میں شدید سرد۔ آسمان سے باتیں کرتے سترہ،اٹھارہ ہزارفٹ اونچے پہاڑ اسے گھیرے ہیں۔اس کے قرب وجوار میں دنیا کی خوبصورت ترین جھیلیں ہیں جن میں دنیا کی جنت ”شنگریلہ“،پہاڑوں کا آئینہ ”سد پارہ“جس کے شفاف پانی میں پہاڑ اپنی چوٹی پر گری برف کا عکس دیکھ کر اپنی خوبصورتی پہ ناز کرتے ہیں۔ سد پارہ گاؤں سے ہی جیپ ایبل سڑک برفیلے پہاڑوں میں گھرے سطح سمندر سے اوسطً 13سے 14 ہزار فٹ بلند دیو سائی (دیو جیسا بڑا)میدان کو جاتی ہے۔ آٹھ سو بیالیس (842) کلو میٹر پر پھیلے دیوسائی نیشنل پارک کا قیام چیف کمشنر گلگت بلتستان محترم شکیل دورانی(بعد میں چیئرمین واپڈا بھی رہے) کے دور میں عمل میں آیا۔ جولائی اگست کے مہینوں میں اس میدان کی خوبصورتی جوبن پر ہوتی ہے جب اس میدان کے سبزے میں کئی رنگ کے پھول کھل اٹھتے ہیں۔ٹھنڈی مہکتی پون برفیلی چوٹیوں سے ٹکراتی ماحول کو درخشندہ کر دیتی ہے۔ ہزاروں سیاح یہاں کا رخ کرتے ہیں اور اپنے حصے کی خوبصورتی کیمروں میں محفوظ کرکے ساتھ لے جاتے ہیں۔ یہاں کا موسم، جھیلوں کی خوبصورتی، مچلتے ندی نالوں کا جل ترنگ ان کے دل و دماغ میں سمو جاتا ہے۔ سیٹی بجاتی ہوا کو شاید یہاں آئے سیاح کبھی بھلا پائیں۔ البتہ اس میدان میں سفر کرنا آسان نہیں۔ ٹیڑامیڑا پتھریلا راستہ انسانی ہمت اور جیپ کا کڑا امتحان ہے۔ کہتے ہیں سابق وزیر اعظم عمران خاں کا بھی کبھی یہ پسندیدہ مقام رہا ہے۔ اس میدان کے نباتات اور حیوانات اس کی خوبصورتی میں کئی گنا اضافہ کرتے ہیں۔“

 ”دیو سائی کے ”چھوٹے اور بڑے پانی“ سے دو دریا ”دریائے شنگو اور دریائے شی گر“ پھوٹتے ہیں۔ شی گر شنگو میں مل کر بھارت میں داخل ہوتا ہے وہاں یہ ”سورو ریور“ کہلاتا ہے۔ کارگل کے گاؤں ”خاکسار“ کے قریب ”دریائے دراس“ سندھو میں ملتا ہے دریائے دراس ”زولوجی پاس“ کے پہاڑوں سے نکلتا ہندوستان کا چکر لگا کر اولڈنگ کے قریب پاکستان میں داخل ہو تا ہے۔ پاکستان میں داخل ہو کر یہ شنگو ہی کہلاتا ہے اور مرول ٹاپ پر مجھ میں گرتا ہے۔ کیا تمھارے علم میں ہے کہ اس خطے میں کئی دریا ہیں جو پاکستان میں جنم لے کر بھارت داخل ہوتے ہیں وہاں کی ندیاں، نالوں دریاؤں کا پانی خود میں شامل کرکے گھوم کر دوبارہ کسی اور مقام سے پاکستان میں داخل ہو کر سندھو میں ہی گرتے ہیں۔ ان میں شنگو اور شیوک قابل ذکر ہیں۔“  (جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)

اپنا تبصرہ بھیجیں