اقبال نے جن عظیم فلسفیانہ اور حکیمانہ موضوعات کو اپنی شاعری کا مقصد بنایا ہے وہ اس قدر بلند و ارفع ہیں کہ روزمرہ کی سادہ زبان ان کے اظہار و ابلاغ کے لئے ناکافی ہے

مصنف: جمیل اطہر قاضی

 قسط:44

اسی طرح اقبال کے ہاں اضافتوں کا استعمال بھی کثرت سے ہوا ہے۔ جس نے ان کے لب و لہجہ پر بھی خاصا اثر ڈالا ہے۔ اقبال نے اپنی بات میں زور پیدا کرنے اور اس کی اہمیت ظاہر کرنے کے لئے بعض اور طریقے بھی استعمال کئے ہیں جس سے ان کی طرزِ ادا میں جوش بیان پیدا ہو جاتا ہے بلکہ وہ جس بات کو ظاہر کرنا چاہتے ہیں اس پر اتنا زور پڑتا ہے کہ وہ خود بخود نمایاں ہو جاتی ہے اور اس کی صوتی بلند آہنگی قاری یا سامع کو اپنی طرف متوجہ کرلیتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور چیز جو سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ ایسے مواقع پر اشعار کے مصرعے2 حصوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔ جن کو پڑھتے وقت الگ الگ ان پر صوتی دباؤ اور زور پڑنے سے ان کے لہجہ کی بلندی، خود داری اور خودنگری ظاہر ہوتی ہے وہ پہلے ایک مصرعہ میں ایک بات کہتے ہیں اور پھر دوسرے مصرعہ میں اسی بات کو اس یقین کے ساتھ دہراتے ہیں کہ اس کی اہمیت مکمل طورپر واضح ہو جاتی ہے۔

من بندۂ آزادم عشق است امامِ من

عشق است امامِ من، عقل است غلامِ من

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مثل شر ذرہ راتن بہ طپیدن دہم

تن بہ تپیدن دھم بال پریدن دھم

اور بعض اوقات وہ ایک ہی مصرعہ میں ایک جملہ کو اس طرح دہراتے ہیں کہ ان کی شد ِت طلب اور شدتِ آرزو کا آہنگ تیز تر ہو جاتا ہے۔

بدہ آں دل، بدہ آں دل کہ گیتی را فرا گیرد

بگیر ایں دل بگیر ایں دل کہ دربند کم وبیش است

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بیگانۂ شوق، بیگانۂ شوق

ایں جوئباراں، ایں آبشاراں 

فریاد بے سوز، فریاد بے سوز

بانگِ ہزاراں، در شاخساراں 

اس ضمن میں ایک اور پہلو بھی سامنے آتا ہے اور وہ ہے ان کا نئی تراکیب اختراع کرنا۔ یہ تراکیب عام طور پر فلسفیانہ اور عالمانہ ہیں۔ ان تراکیب کا صوتی آہنگ بھی ایک بلند آواز کا اظہار کرتا ہے اور مجموعی طور پر ان کے لب ولہجہ کے عناصرِ ترکیبی میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ مثلاً ان اشعار میں جو تراکیب لائی گئی ہیں ان کو ملاحظہ فرمائیے۔

عارف و عاصی تمام بندۂ لات و منات

خوار ہوا کس قدر آدم یزداں صفات

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سلسلۂ روز و شب سازِ ازل کی فغاں 

س سے دکھاتی ہے ذات زیروبمِ ممکنات

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تجھ کو پرکھتا ہے یہ مجھ کو پرکھتا ہے یہ

سلسلۂ روز و شب صیرفی کائنات

لیکن اقبال کی زبان، لفظیات اور نئی تراکیب اختراع کرنے کا اصل محرک اوربنیادی سبب دریافت کرنے کی کوشش کی جائے تو پتہ چلے گا کہ اس کی حقیقی وجہ یہ ہے کہ اقبال نے جن عظیم فلسفیانہ اور حکیمانہ موضوعات کو اپنی شاعری کا مقصد بنایا ہے اور جن اسرار و رموز کوواضح کرناچاہا ہے وہ اس قدر بلند و ارفع ہیں کہ روزمرہ کی سادہ زبان ان کے اظہار و ابلاغ کے لئے ناکافی ہے۔ ان عمیق خیالات و افکار کی وہ متحمل نہیں ہوسکتی۔ یہی جہ ہے کہ اقبالؒ کو روزمرہ کی زبان ترک کرکے کتابی اور عالمانہ زبان اختیار کرنی پڑی۔ فارسی تراکیب کو بروئے کار لانا پڑا۔ صوفیانہ علامات سے کام لینا پڑا اور جب فارسی زبان اور اس کی تراکیب نے بھی ان کے جدید موضوعات اور جدید فلسفیانہ تصورات کا ساتھ نہ دیا تو انہیں مجبوراً نئی تراکیب اختیار کرنی پڑیں۔ اسی ضمن میں انہوں نے کہیں کہیں عربی الفاظ کا بھی سہارا لیا اور اس طرح وہ روز مرہ اور عام بول چال کی زبان سے کچھ دور جا پڑے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی زبان اور شاعری کا لب و لہجہ زیادہ عالمانہ، رعب دار اورتوانا ہے۔ اور ان جدید تصورات کی ادائیگی کی بنا پر ہی ان کی تراکیب اورلفظیات میں ایک طرح کی ثقالت اور گرانی پیدا ہوگئی۔ اس لئے کہ ان کی شاعری حقائق و افکار کی شاعر ی ہے اور عظیم مقصدیت کی حامل ہے۔ اسی مقصدیت اور حقیقت پسندی نے ان کی شاعری کے لب و لہجہ کو بھی متاثر کیا ہے۔) جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)

اپنا تبصرہ بھیجیں