ایک  اورعظیم دیوار 

پانی کی کمی ، گلوبل وارمنگ اور دیگر قدرتی عوامل کی وجہ سے دنیا کے کئی ممالک سرسبز زمینوں  کے صحراؤں  میں تبدیل ہونے کے مسئلے کا سامنا کر رہے ہیں۔ صحرا کاری ایک بڑا عالمی ماحولیاتی مسئلہ ہے جو انسانی بقا اور ترقی کو متاثر کرتا ہے۔ گزشتہ چالیس سال سے زائد کی مسلسل کوششوں کے بعد، صحرائی علاقوں کی معاشی اور سماجی ترقی اور ماحولیاتی تحفظ نمایاں  تبدیلیوں سے گزرا ہے.  چین دنیا میں سب سے زیادہ ریگستانی رقبے کے حامل ممالک میں سے ایک ہے اور یہ صحرائی زمین بنیادی طور پر چین کے شمال مغرب، شمال اور شمال مشرق میں پھیلی ہوئی ہے، جسے “تھری نارتھ” خطہ کہا جاتا ہے۔ 

 اندرونی منگولیا  ان علاقوں میں سے ایک ہے جہاں چین میں صحرائی اور ریتلی زمین کا سب سے زیادہ ارتکاز اور سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے ۔ اس مسئلے کے حل  کے لیے گزشتہ صدی کے 70 کی دہائی کے آخر سے چینی حکومت نے ‘تھری نارتھ’ مصنوعی جنگلات کا منصوبہ شروع کیا،  جو 4.35 ملین مربع کلومیٹر سےزائد رقبے پر محیط ہے اور  چین کے کل زمینی رقبے کا 45 فیصد بنتا ہے۔ اس منصوبے کو  “گریٹ گرین وال” کا نام دیا گیا ہے، اور اسے آٹھ مرحلوں پر مشتمل 70 سال کی مدت میں مکمل کیا جائے گا ، اس وقت تعمیر کا چھٹا مرحلہ جاری ہے۔ شی جن پھنگ کا ماننا ہے کہ چین نے چینی خصوصیات کے ساتھ ریت کی روک تھام اور کنٹرول کے راستے پر قدم رکھا ہے جو فطرت، قومی حالات اور جغرافیے کے عین مطابق ہے۔

حالیہ دنوں چین کے صدر مملکت  شی جن پھنگ نے چین کے اندرونی منگولیا خود اختیار علاقے کے  بیانور خطے کا معائنہ کیا اور ریت کی روک تھام اور کنٹرول کو مضبوط بنانے سے متعلق ایک سمپوزیم کی صدارت کی۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں  ذمہ داری اور بہادری کے ساتھ مسلسل محنت کی بدولت شمالی چین میں ہزاروں میل کی سبز ر دیوار کی تعمیر اور ریت کے انسداد و کنٹرول کا نیا معجزہ تخلیق کرنے کے لئے جدو جہد کرنی ہوگی۔  اپنے اس دورے کے دوران وہ شنہوا  فاریسٹ فارم  بھی تشریف لے گئے۔ یہ  جنگلاتی فارم 1960 میں بنایا گیا تھا، اس کا رقبہ 3466 ہیکٹر ہے،یہاں ماضی میں ہوا اور ریت سے انتہائی شدید  نقصان ہوا کرتا تھا۔ چین میں ریتلی زمین  سے نمٹنے کے لیے  ،اس علاقے میں 2,600 ہیکٹر  رقبے پر جنگلات لگائے گئے ہیں، اور جنگلات کی کوریج کی شرح 65 فیصد  تک پہنچ چکی ہے۔ 

شی جن پھنگ نے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں ذمہ داری اور بہادری کے ساتھ خدمات انجام دیتے ہوئے مشکلات کے باوجود مسلسل محنت کی بدولت نئے عہد میں چین میں ریت کے انسداد و کنٹرول کا نیا معجزہ تخلیق کرنے کے لئے جدو جہد کرنی ہوگی۔ 

 صدر شی نے کہا کہ گزشتہ چالیس سال سے زائد کی مسلسل کوششوں کے بعد، چین کے انسداد ریت اور ریگستانی کنٹرول کے کام نے زبردست کامیابیاں حاصل کی ہیں جنہوں نے دنیا بھر کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی ہے۔اس کی مناسبت سے اہم علاقوں  میں تاریخی تبدیلی حاصل کی گئی ہے اور صحرائی علاقوں کی معاشی اور سماجی ترقی اور ماحولیاتی تحفظ میں نمایاں پیش رفت ہوئی ہے . 

شی جن پھنگ نے مزید کہا کہ یہ ضروری ہے کہ  پہاڑوں ، جنگلات، کھیتوں، جھیلوں، گھاس اور ریت کے مربوط تحفظ اورانتظام کو مضبوطی سے فروغ دیا جائے۔ سائنسی طور پر ریت کے کنٹرول پر عمل کرنا  اور صحرائی ماحولیاتی نظام کے معیار اور استحکام کو جامع طور پر بہتر بنانا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ  وسیع پیمانے پر بین الاقوامی تبادلوں اور تعاون کے تحت صحرا کے پھیلاو کا مقابلہ کرنے کے لئے اقوام متحدہ کے کنونشن پر عمل درآمد کیا جائے ، عالمی صحرائی ماحولیاتی انتظام میں فعال طور پر حصہ لیا جائے ، خاص طور پر ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعاون کو مضبوط  بناتے ہوئے “بیلٹ اینڈ روڈ” سے وابستہ ممالک میں صحرا کے پھیلاو پر قابو پانے کے لیے مشترکہ کوشش کی جائے اور پالیسی ڈائیلاگ اور معلومات کے تبادلے کے لئے مختلف ممالک کی رہنمائی کی جائے تاکہ  ریت اور دھول کی آفات سے مشترکہ طور پر نمٹا جا سکے ۔  

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا کہ چین نے دنیا میں زمین کے انحطاط کو روکنے ،صحرائی اور ریتلی زمین کے رقبے میں کمی حاصل کرنے اور  زمینی انحطاط کو روکنے کے2030 کے ہدف کو حاصل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔  

اپنا تبصرہ بھیجیں