کراچی (آن لائن) پاکستانی روپیہ جو ابھرتی ہوئی مارکیٹوں میں گزشتہ چند مہینوں میں بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی کرنسی ہے، اپریل 2022 کے بعد سے بدترین کمی کا سامنا کر رہا ہے، ایک سال کے عرصے میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں اس کی قدر میں 102 روپے کی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ ایک ہائی پروفائل انویسٹمنٹ بینکر جس نے اکتوبر میں پاکستانی روپے کے 250 سے نیچے گرنے کی پیش گوئی کی تھی، نے ایک اور دل دہلا دینے والی پیشگوئی کی ہے۔ اس بینکر کا کہنا ہے کہ مئی میں ڈالر 300 جب کہ جون میں 310 روپے کا ہوجائے گا۔
ویب سائٹ پرو پاکستانی کے ساتھ بات کرتے ہوئے بینکر نے کہا کہ اب روپے کے اوپر کوئی فارمولا کام نہیں کر رہا ، یوں لگتا ہے کہ آئندہ چند ہفتوں میں ڈالر 300 سے 310 روپے کا ہوجائے گا، اگلے مالی سال میں کنٹرول شدہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ روپے کی قدر کو برقرار رکھے گا لیکن صنعتوں کا پہیہ دوبارہ چلنے تک روپے کی بے قدری کا سلسلہ نہیں رکے گا، آئی ایم ایف کیش ایک قلیل مدتی حل ہے، اس لیے اگر انتخابات ہوجاتے ہیں تو اس سے صورتحال مزید واضح ہوجائے گی۔
جب سے حکومت نے جنوری میں کرنسی کے کنٹرول سے نرمی کی، مارکیٹیں شرح مبادلہ کی نقل و حرکت کا اندازہ نہیں لگا سکتیں ۔ حکومت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف) کی جانب سے ایک ارب ڈالر کے بیل آؤٹ کے لیے تبدیلیوں کی درخواست کو پورا کر رہی ہے، جس کے نتیجے میں قلیل مدت میں اجناس اورتوانائی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے اور لوگوں کی زندگیاں مشکل ہوئی ہیں۔
بینکر کے مطابق ‘پاکستان ادائیگیوں کے توازن کے بحران کا سامنا کر رہا ہے، اس کے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو رہے ہیں اور روپے کی قدر کم ہو رہی ہے۔ یہ حرکیات، درآمد اور غیر ملکی کرنسی کی پابندیوں کے ساتھ مل کر، غیر ملکی قرضوں پر سود کی ادائیگیوں میں اضافہ کرتی ہیں جس کا ہم بھاری بوجھ اٹھا رہے ہیں۔’
11 اپریل 2022 سے اب تک روپے کی قدر میں 56 فیصد سے زیادہ کمی آئی ہے، اس وقت امریکی ڈالر 182.02 روپے کا تھا لیکن اب اس کی قدر 102 روپے 63 پیسے مزید بڑھی ہے اور یہ روپے کے مقابلے میں 284 روپے 65 پیسے کا ہوگیا ہے۔ 30 دسمبر 2022 سے اب تک روپے کی قدر میں 25.7 فیصد کمی ہوئی ہے۔ حالیہ مہینوں میں پاکستانی روپیہ عالمی سطح پر سب سے زیادہ متاثر ہونے والی کرنسیوں میں سے ایک رہا ہے۔ 2018 میں 105.18 کی کم ترین سطح سے یہ 284.65 کی موجودہ سطح پر گر گیا ہے۔