مالی اعداد و شمار پر پاکستان اور آئی ایم ایف میں اختلافات،اندرونی کہانی سامنے آگئی

ادائیگی پر مادگی کا اظہار کیا ہے۔یہ قرض صوبائی محکمہ ہائے خوراک نے پیدا کیا ہے جو حکومتی مالیاتی حدود سے باہر نکل کر کام کرتے رہے تاہم آئی ایم ایف کا یہ مطالبہ کہ پرچون فروشوں کےلئے ایک سادہ ٹیکس سکیم لائی جائے سن کر وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کو آخری لمحے میں ایک اور اجلاس میں شرکت کےلئے بھاگنا پڑا۔وہ مالی محاذ پر آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے جمعہ کے اجلاس میں شریک نہیں ہوپائے چنانچہ اب انہیں پرچون فروشوں پر ٹیکس عائد کرنے کی سکیم کے حوالے سے حکومتی ارادوں کے حوالے سے آگاہ کرنا ہوگا۔ حکومت پرچون فروشوں پر ٹیکس عائد کرنے کے حوالے سے پہلے ہی گزشتہ بجٹ کے دوران ٹیکس قوانین میں یہ اختیار حاصل کرچکی ہے۔اس سکیم میں پارلیمنٹ سے کسی قانونی منظوری کی ضرورت نہیں ہوگی لیکن نواز لیگ کی قیادت میں چلنے والی حکومت اپنی سیاسی ساکھ بچانے کےلئے دکانداروں پر ٹیکس لگانے کی منظوری دینے میں متذبذب نظر آرہی ہے۔آئی ایم ایف نے مارچ سے جون کے چار ماہ کے دوران مختلف تخمینے دکھائے جن کے بارے میں اس کا دعویٰ ہے کہ یہ وزارت خزانہ نے شیئر کیے ہیں تاہم ایف بی ا?ر نے وضاحت کی ہے کہ وہ 9415 ارب روپے کا سالانہ ٹیکس وصولی کا ہدف حاصل کرلے گااور اس حوالے سے کسی ضمنی بجٹ کی کوئی ضرورت نہیں۔ایک بھرپور مباحثے کے بعد آئی ایم ایف نے ایف بی آر سے کہا کہ وہ اپنا ماہانہ ہدف وقت پرشیئر کریں اور اگر ضرورت پڑے تو اضافی ٹیکس کے اقدامات لئے جائیں۔ آئی ایم ایف نے ایف بی آر کےلئے یہ لازمی قرار دے دیا ہے کہ وہ اپریل تک حاصل ہونے والے محصولات 3 مئی 2024 تک شیئر کرے۔ آئی ایم ایف نے ایف بی آر کے سرکردہ افسران کو یاددلایا کہ ایف بی آر نے صوبائی دارالحکومتوں اور وفاقی دارالحکومت میں گھرگھرجاکر نان فائلرز پرچون فروشوں کی رجسٹریشن کا منصوبہ بنایا تھا۔اس منصوبے کے تحت کراس ریفرنسنگ کے ذریعے بجلی کے میٹر کے ڈیٹا کے ساتھ فائلنگ کرنا مقصود تھا تاکہ ایف بی آر ٹیکس سے بچنے کے حربوں کا پتہ چلاسکے اور جب ضرورت ہو تو اس کا آڈٹ کر سکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں