جسٹس اعجاز الاحسن کا سپریم کورٹ کو خط، فوجی عدالتوں سے متعلق بینچ پر سوالات اٹھا دیئے

سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس اعجاز الاحسن نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو خط لکھ کر فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل اور جسٹس مظاہر علی نقوی کے لیے تشکیل دیئے جانیوالے بینچوں پر شدید اعتراضات اٹھا دیئے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے خط میں کہا ہے کہ7 دسمبر کو 4 بجےچیف جسٹس پاکستان کے آفس میں اجلاس ہوا ،اجلاس کا ایجنڈہ مجھے متعدد مرتبہ رابطوں کے بعد دیا گیا ، کمیٹی اجلاس میں فیصلہ ہوا تھا کہ ملٹری کورٹس انٹرا کورٹ اپیلیں سات رکنی بنچ سنے گا، میں نے رائے دی تھی پک اینڈ چوز کے تاثر کو زائل کرنے کیلئے سینئر ججز پر مشتمل بنچ تشکیل دیا جائے، چیف جسٹس پاکستان نے میری تجویز سے اتفاق کیا تھا اور کہا تھا میں ججز سے رائے لونگا ،اگر کوئی جج نہ بیٹھا تو اس کے بعد دوسرا سینئر جج شامل کریں گے۔انہوں نے کہا کہ مجھے کمیٹی میٹنگ کے منٹس سے آگاہ نہیں کیا گیا،آرٹیکل 184 کی شق تین کے تحت درخواست پر سماعت کیلئے تشکیل دیا گیا بنچ بھی سینئر ججز پر مشتمل نہیں ہے، کمیٹی اجلاس کے منٹس میری منظوری کے بغیر ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیے گئے،میرا یہ نوٹ بھی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیا جائے ۔ خط میں کہا گیا کہ انتظار کرنے کے باجود 6:30 کال کرنےپر بتایا گیا کہ رجسٹرار صاحبہ جاچکی ہیں ، چوتھی اور پانچویں کمیٹی اجلاس کے منٹس نہ تو بھجوائے گئے نہ دستخط لئے گئے،ان منٹس کو بغیر میری منظوری سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جاری کردیا گیا

اپنا تبصرہ بھیجیں