امریکہ کی جانب سے گرائے جانے والے ’غباروں‘ کے چینی جاسوسی آلات ہونے کا کوئی اشارہ نہیں ملا: وائٹ ہاؤس

وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ امریکی فوج کی جانب سے گذشتہ ہفتے کے اختتام پر گرائے جانے والے تین ’غباروں‘ کے چینی جاسوسی آلات ہونے کا کوئی اشارہ نہیں ملا۔

وائٹ ہاؤس کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ یہ چیزیں ’کمرشل یا تحقیقاتی چیزیں ہو سکتی ہیں چنانچہ یہ بے ضرر ہوں گی۔‘

امریکی اور کینیڈین حکام نے اب تک ان تینوں کا ملبہ دریافت نہیں کیا۔

بیجنگ نے اس سے قبل امریکہ پر ضرورت سے زیادہ شدید ردِ عمل دینے کا الزام عائد کیا تھا۔

چین کا ایک غبارہ رواں ماہ ایک امریکی لڑاکا طیارے نے ریاست جنوبی کیرولائنا کے قریب مار گرایا تھا۔ چین نے اس بات کی تردید کی ہے کہ یہ غبارہ جاسوسی کے لیے استعمال ہو رہا تھا اور کہا ہے کہ یہ صرف ایک موسمیاتی ایئرشپ تھا جو ہوا کے باعث اپنے راستے سے ہٹ گیا تھا۔

منگل کی یومیہ نیوز کانفرنس میں جان کربی نے کہا کہ الاسکا، کینیڈا اور مشیگن کے اوپر گرائی گئی تین دیگر چیزوں کا مقصد اور یہ جاننا کہ وہ کہاں سے آئی تھیں، مشکل ہو گا جب تک کہ ملبہ نہیں مل جاتا اور اس کا تجزیہ نہیں کر لیا جاتا۔

جان کربی وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے رکن بھی ہیں۔ اُنھوں نے رپورٹرز کو بتایا کہ ’ہم نے ایسی کوئی علامت یا کوئی چیز نہیں دیکھی جو اس جانب اشارہ کرتی ہو کہ یہ تینوں چیزیں عوامی جمہوریہ چین کے جاسوسی پروگرام کا حصہ تھیں یا یہ کہ وہ واضح طور پر غیر ملکی انٹیلیجنس معلومات کے حصول میں ملوث تھیں۔‘

اُنھوں نے مزید بتایا کہ امریکی انٹیلیجنس جس ’سرِفہرست وضاحت‘ پر غور کر رہی ہے وہ یہ کہ ’یہ غبارے بس کسی کمرشل یا تحقیقاتی ادارے کے تھے چنانچہ بے ضرر تھے۔‘

پر اُنھوں نے نشاندہی کی کہ اب تک کسی کمپنی، تنظیم یا حکومت نے ان چیزوں کے لیے دعویٰ نہیں کیا۔

چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی مارک ملی نے منگل کو بتایا کہ تازہ ترین واقعہ ہیورون جھیل کے اوپر پیش آیا ہے۔ ایک امریکی ایف 16 طیارے کا فائر کیا گیا پہلا میزائل نشانے پر نہیں لگا تھا۔ ’پہلا نشانہ خطا ہوا، دوسرا اسے جا لگا۔‘

اُنھوں نے کہا کہ ’ہم یہ یقینی بنانے کی پوری کوشش کرتے ہیں کہ میزائل کی زیادہ سے زیادہ رینج تک فضائی سپیس فائر کے وقت صاف ہو۔ اس کیس میں میزائل بے ضرر انداز میں ہیورون جھیل کے پانی میں اتر گیا ہے۔‘

چینی وزارتِ خارجہ کے ایک ترجمان نے امریکی جواب پر تنقید کی ہے۔

منگل کو وانگ وینبن نے کہا کہ ’امریکہ میں کئی لوگ پوچھ رہے ہیں کہ اس قدر مہنگا عمل امریکہ اور اس کے ٹیکس دہندگان کے لیے کیسے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے؟

چار فروری کو بحرِ اوقیانوس سے اس مبینہ جاسوس غبارے کے سینسرز حاصل کر لیے گئے تھے اور اب ایف بی آئی اس پر تحقیقات کر رہی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں