”کیا صدر کا کردار صرف نیوز کاسٹر کا ہے کہ وہ اعلان کر ے؟ اعلان توکوئی چھت پر چڑھ کے بھی کردے “ جسٹس منیب اختر کے ریمارکس 

 سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبر پختون خوا میں انتخابات کے معاملے پر از خود نوٹس پر سماعت ہو رہی ہے جس دوران جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کو اعلان کرناہے تو صدر اور گورنر کا کردار کہا ں جائے گا؟ کیا صدر کا کردار صرف نیوز کاسٹر کا ہے کہ وہ اعلان کرے ؟

اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ صدر الیکشن کی تاریخ صرف قومی اسمبلی تحلیل ہونے پر دے سکتاہے ، دوسری صورت میں ملک بھر میں انتخابات ہوں تو ہی صدر تاریخ دے سکتاہے ، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ صدر کے صواب دیدی اور ایڈوائس پر استعمال کرنے والے اختیارات میں فرق ہے ، اٹارنی جنرل نے کہا کہ گورنر اسمبلی تحلیل کے اگلے دن انتخابات کا کہہ دے تو الیکشن کمیشن نہیں مانے گا، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ گورنر کو الیکشن ایکٹ کو بھی مد نظررکھناہے ، اٹارنی جنرل نے کہا الیکشن 90 روز میں ہی ہونے چاہئیں، آگے نہیں لے جانا چاہیے ،نتخابات 90 دنوں سے آگے کون لے کر جا سکتاہے یہ الگ بات ہے ،جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ کیا الیکشن کمیشن گورنر کی تاریخ پر تاخیر کر سکتاہے ؟اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ گورنر 85 ویں دن الیکشن کا کہے تو الیکشن کمیشن 89 دن کا کہہ سکتاہے ،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ گورنر کو اسی وجہ سے الیکشن کمیشن سے مشاورت کا پابند کیا گیاہے ،صدر ہو یا گورنر سب ہی آئین اور قانون کے پابند ہیں ،جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آج الیکشن کمیشن سے گورنر کی مشاورت کرائیں اور کل تاریخ دیدیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین کی تشریں پارلیمنٹ کی قانون سازی سے نہیں ہوسکتی ،آئین سپریم ہے ،صدر مملکت کو آئین انتخابات کی تاریخ دینے کی اجازت نہیں دیتا، صدر صرف انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر سکتاہے ، لاہور ہائیکورٹ نے واضح کہا انتخابات کرانا اور تاریخ کا اعلان الیکشن کمیشن کا اختیار ہے ، انتخابات وفاق کا سبجیکٹ ہے ، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ انتخابات کی تاریخ طے الیکشن کمیشن اور اعلان گورنر کو کرناہے ، جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ جب سب واضح ہے تو جھگڑا کس بات کا ہے ؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ لاہور ہائیکورٹ میں انٹر اکورٹ اپیلوں پر سماعت 14، 14 د ن ملتوی ہو رہی ہیے ،  اتنے اہم آئینی سوال پر اتنے لمبے التواءکیوں ہو رہے ہیں ؟الیکشن کمیشن کے پاس انتخابات کی تاریخ کا اختیار آئین کی کس شق کے تحت آیا ؟جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ آئین کے تحت الیکشن کمیشن کے اختیارات انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد شروع ہوتے ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ تاریخ میں صدر کے کچھ جمہوری کچھ غیر جمہوری اختیارات تھے ، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اگر صدر انتخابات کی تاریخ نہیں دے سکتے تو سیکشن 57 ختم کیوں نہیں کر دیتے ؟ کیا کسی نے سیکشن 57 کو آئین سے متصادم ہونے پر چیلنج کیا ؟ جسٹس مظہر نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ آپ کی رائے میں انتخابات کی تاریخ دینا کس کا اختیار ہے ؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے ۔ 

 جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کو اعلان کرناہے تو کسی سے مشاورت کی ضرورت نہیں ،جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آئین اور قانون کی منشا کو سمجھیں ،الیکشن کمیشن کو اعلان کرنا ہو تو صدر اور گورنر کا کردار کہاں جائے گا؟ کیا صدر کا کر دار صرف نیوز کاسٹر کا ہے کہ وہ اعلان کرے؟ اعلان تو کوئی چھت پر چڑھ کے بھی کر دے ، اعلان ہی کرنا ہے تو الیکشن کمیشن اپنی ویب سائٹ استعمال کرے ، چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا کردار ہر صورت میں اہم ہے ، ،آپ کے مطابق الیکشن کمیشن کا کردار مرکزی ہے ، دوسری جانب کا کہناہے الیکشن کمیشن کا کردار مشاورتی ہے ، جسٹس منیب نے کہا کہ کیا انتخابی مہم کا دورانیہ کم نہیں کیا جا سکتا ؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ بیلٹ پیپرز کی چھپائی کیلئے وقت درکار ہوتاہے ، انتخابی مہم کا دورانیہ دو ہفتے تک کیا جا سکتاہے ، جسٹس منیب نے کہا آئین پر عمل کرنا زیادہ ضروری ہے ، اٹارنی جنرل نے کہا کہ 2008 کا الیکشن بھی مقررہ مدت کے بعد ہواتھا ، چیف جسٹس نے کہا کہ 2008 میں بہت بڑا سانحہ ہوا تھا ، جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ پہلا سوال یہ ہے کہ تاریخ دے گا کون ؟ الیکشن کمیشن کی تاریخ آنے پر ہی باقی بات ہو گی ،قانون میں تاریخ دینے کا معاملہ واضھ کر دیا جاتا تو آج یہاں نہ کھڑے ہوتے ، اٹارنی جنرل نے کہا کہ انتخابات 90 دن میں ہی ہونا لازمی ہے تو 1988 کا الیکشن مشکوک ہو گا؟ ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں