انتخابات کی تاریخ سے متعلق ازخودنوٹس کی سماعت کرنیوالے بنچ سے 4 ججز الگ ہو گئے،باقی بنچ مقدمہ سنتا رہے گا،چیف جسٹس پاکستان

پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کی تاریخ سے متعلق ازخودنوٹس کی سماعت کرنے والے بنچ سے 4 ججز نے خود کو الگ کرلیا،،چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ 4 معزز ممبرز نے خود کو بنچ سے الگ کرلیاہے، آئین کی تشریح کیلئے عدالت سماعت جاری رکھے گی ، عدالت کا باقی بنچ مقدمہ سنتا رہے گا۔

نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کی تاریخ سے متعلق ازخودنوٹس کیس میں سپریم کورٹ کے 4 ججز نے نئے بنچ کی تشکیل پر رائے دیدی،جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے رائے دی ۔

پنجاب اور خیبرپختونخوامیں انتخابات کی تاریخ سے متعلق ازخودنوٹس کیس کا سپریم کورٹ نے گزشتہ سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا،عدالت نے 23 فروری کی سماعت کا 14 صفحات پر مشتمل حکم نامہ جاری کیا،فیصلے میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی کے اختلافی نوٹ شامل ہیں ،جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس اطہر من اللہ کے اختلافی نوٹ بھی شامل ہیں،بنچ کی دوبارہ تشکیل کا معاملہ چیف جسٹس عمر عطابندیال کو بھجوادیاگیا،نئے بنچ کی تشکیل کے بعد کیس دوبارہ سماعت کیلئے مقرر کیا جائے گا۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا عام انتخابات کا معاملہ پشاور اور لاہور ہائیکورٹ میں زیرسماعت ہے ، ازخودنوٹس میں سپریم کورٹ کی رائے ہائیکورٹ کے فیصلے پر اثرانداز ہو سکتی ہے۔

چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ 4 معزز ممبرز نے خود کو بنچ سے الگ کرلیاہے، آئین کی تشریح کیلئے عدالت سماعت جاری رکھے گی ، عدالت کا باقی بنچ مقدمہ سنتا رہے گا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ آئین کیا کہتا ہے اس کا دارومدار تشریح پر ہے ، کل ساڑھے 9 بجے سماعت شروع کرکے ختم کرنے کی کوشش کریں گے ، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ جسٹس جمال مندوخیل کا نوٹ حکم نامہ سے پہلے ہی سوشل میڈیا پر آگیا،جب تک حکم نامہ ویب سائٹ پر نہ آ جائے جاری نہیں کرسکتے، مستقبل میں احتیاط کریں گے کہ ایسا واقعہ نہ ہو۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ علی ظفر دلائل کا آغاز کرتے ہوئے آگاہ کریں عدالت یہ کیس سنے یا نہیں؟آگاہ کیا جائے عدالت یہ مقدمہ سن سکتی ہے یا نہیں؟کل ہر صورت مقدمے کو مکمل کرنا ہے،چھوٹے چھوٹے معاملات میں وقت نہ ضائع کیا جائے،آئین کے مطابق معاملہ چلانا چاہتے ہیں،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ عدالتی احکامات پہلے ویب سائٹ پر آتے ہیں پھر پبلک ہوتے ہیں،جسٹس جمال خان مندوخیل کا نوٹ پہلے پبلک ہونا غیرمناسب ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ الیکشن کی تاریخ کون دیتا ہے؟جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ 90 سے تاخیر کے حوالے سے آئین کی کوئی شق نہیں ،جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ کیا الیکشن میں 90 دن سے تاخیرہو سکتی ہے؟وکیل پی ٹی آئی علی ظفر نے کہاکہ الیکشن میں ایک گھنٹے کی بھی تاخیر نہیں ہو سکتی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ گورنر پنجاب نے معاملہ الیکشن کمیشن کی کورٹ میں پھینک دیا،جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیاگورنر کوکون مقررکرتا ہے؟بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ گورنر کا تقرر صدر مملکت کی منظوری سے ہوتا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ گورنر کے تحلیل کرنے اور آئینی مدت کے بعد ازخودتحلیل ہو جانے میں فرق ہے ، بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ عدالت گورنر یا الیکشن کمیشن کو تاریخ مقرر کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔

وکیل سابق سپیکر پنجاب اسمبلی نے کہاکہ انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے،الیکشن کرانے کیلئے سب سے پہلی چیز تاریخ کا اعلان ہے،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ آپ کہہ رہے ہیں الیکشن کی تاریخ الیکشن کا حصہ ہے،جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ ہائیکورٹ کیس میں یہی استدعا نہیں جو آپ یہاں کررہے ہیں۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ ہائیکورٹ نے قرار دیا انتخابی عمل الیکشن سے پہلے شروع اور بعد میں ختم ہوتا ہے،عدالتی حکم پر الیکشن کمیشن اور گورنر کی ملاقات بے نتیجہ ختم ہوئی، صدر مملکت نے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے خود تاریخ مقرر کردی،

 وکیل اظہر صدیق نے کہاہائیکورٹ میں انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت آج ہونا تھی، ہائیکورٹ نے مقدمہ موخر کردیا،جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کیا فریقین کے کہنے پر مقدمہ موخر ہوا ہے،وکیل اظہر صدیق نے کہاحساس معاملہ ہے روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہونی چاہئے تھی۔

وکیل علی ظفر نے کہاکہ الیکشن کمیشن نے ہائیکورٹ کے حکم کا احترام نہیں کیا،جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ کیا توہین عدالت کی آپشن استعمال کی گئی؟وکیل اظہر صدیق نے کہاکہ 14 فروری کو توہین عدالت دائر کی گئی، توہین عدالت کی درخواست پر الیکشن کمیشن سے جواب مانگا گیا ہے۔

وکیل علی ظفر نے کہاکہ صدر مملکت نے معاملے پر 2 خطوط لکھے،8 فروری کو پہلے خط میں الیکشن کمیشن کو تاریخ کا اعلان کرنے کا کہا گیا،

اپنا تبصرہ بھیجیں