’جنرل فیض نے ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک کو دہشتگرد قرار دے کرزبردستی کھربوں روپے کی ساری زمین اپنے بندوں کے نام کرانے کی کوشش کی‘ ابصار عالم نے تہلکہ خیز واقعہ سنادیا

 پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے سابق چیئرمین ابصار عالم کا کہنا ہے کہ جنرل فیض حمید کے دور میں سیکیورٹی اداروں نے دہشت گردوں کے خلاف ایک آپریشن کیا اور  اسلام آباد سے ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک کو بچوں سمیت اغوا کرکے تھرڈ ڈگری تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر اسے کھربوں روپے کی اپنی زمین نجف نامی شخص اور معصومہ نامی خاتون کے نام کرنے کو کہا، اس نے انکار کیا تو اس کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ کرکے اسے سی ٹی ڈی کے حوالے کردیا گیا، اگرچہ یہ مقدمہ انسداد دہشت گردی عدالت نے ختم کردیا لیکن اپیل اب بھی سپریم کورٹ میں موجود ہے۔

ویب سائٹ پاکستان 24 پر ابصار عالم نے موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے نام ایک خط کی صورت میں کالم لکھا ہے جس میں انہوں نے یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ سابق چیئرمین پیمرا لکھتے ہیں ’’پیشتر اس کے کہ موجودہ آرمی چیف بھی جنرل باجوہ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے جنرل فیض کا دفاع کرنے کے لئے کمر کس لیں، کُچھ مُعاملات اور وجوہات پر اب بات ہو ہی جائے کہ کیا جنرل فیض نے ڈسپلن توڑا یا نہیں اور جنرل باجوہ جن خاص وجوہات اور ذاتی مفادات کی خاطر جنرل فیض کے دفاع کے لیے ہر وقت کمر بستہ رہتے تھے کیا وہ مشترکہ مفاداتی سسٹم اب بھی ویسے ہی چل رہا ہے جیسے باجوہ ڈاکٹرائن کے بدنامِ زمانہ دور میں چل رہا تھا؟

مئی 2017 میں باجوہ ڈاکٹر ائن کے اعلی و ار فع مقاصد حاصل کرنے لیے جب سپریم کورٹ کے پانچ ہم خیال ججز پُوری تندہی سے پانامہ میں سے اقامہ نکال کر نواز شریف کو وزارت عظمی سے برطرف کرنے کے ” دو سالہ پلان “کے آخری مراحل طے کر رہے تھے تو جنرل فیض اور اُن کے حواریوں نے سوچا کیوں نہ اس گرم تندور میں اپنی بھی اربوں روپوں کی دو چپاتیاں لگا لی جائیں۔ بُلٹ ٹرین کی رفتار سے ایک منصوبہ بنا اور اسلام آباد میں موجود ” دہشت گردوں کے انتہائی خطرناک گینگ “ کو پکڑنے کا آپریشن پلان کیا گیا۔

میرے مُحلے ایف 11 میں 12 مئی 2017 کو نمازِ فجر سے کُچھ دیر پہلے رینجرز کی درجنوں گاڑیوں، ٹرکوں اور ایمبولینسز کا کانوائے ایک سو سے زائد مشین گنوں سے مُسلح سولجرز کے ساتھ داخل ہوا۔ آپریشن کے طے شُدہ پلان کے تحت گاڑیاں ایف 11 کی مُختلف گلیوں میں داخل ہو ئیں اور ایک مقرر وقت پر چار گھروں کو گھیرے میں لے لیا گیا۔ آپریشن فیضی ردالدہشت گردی کا آغاز ایف 11/4 میں رمیش سنگھ اروڑا کے گھر سے ہوا۔  دیواریں پھلانگ کر مُسلح وردی پوش اور سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد گھر کے اندر لکڑی کا دروازہ توڑ کر کمروں میں گھُس گئے۔ رمیش سنگھ جو کہ پنجاب اسمبلی کے اقلیتی ممبر تھے اور اُن کا خاندان کرتا پور سنگھ گُردوارہ کے نسل در نسل نگران ہے، خود اُس وقت کرتار پور گئے ہوئے تھے۔ گھر میں کوئی اور مرد بھی نہ تھا، صرف اُن کی بیوی، چھوٹے بچے، اُن کی بیوہ بہن اور اُس کے چھوٹے بچے سو رہے تھے۔ سب کو گھسیٹ کر بیڈ رومز سے نکالا گیا اور اور اُن ڈری سہمی عورتوں اور خوفزدہ بچوں سے تفتیش شروع ہوئی کہ “وقار” کدھر ہے۔ اب وقار تو وہاں کوئی تھا نہیں تو ملتا کیسے؟

کُچھ ہی دیر میں انتہائی تربیت یافتہ اور بہترین انٹیلیجنس اور ہتھیاروں سے مُسلح  افسران کو احساس ہوا کہ وہ غلط گھر میں گھُس گئے ہیں اور جس گھر میں اُنہیں جانا تھا وہ رمیش کے گھر کے سامنے سڑک کے دوسری طرف تھا۔ فوراً ہی وہاں سے پسپائی اختیار کی گئی۔ لیکن عورتوں، بچوں کی نفسیات اور مُحلے میں اُن کی عزت اور ساکھ کو جو نُقصان پہنچنا تھا وہ پہنچ چُکا تھا۔ رمیش سنگھ نے اُس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار کو خط لکھا کہ آئی ایس آئی اور رینجرز کے افسران اور اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی جائے جنہوں نے اُن کی چادر اور چار دیواری کی بے حُرمتی کی ہے لیکن باجوہ ڈاکٹرائن کے مرکزی ستُون جنرل فیض کو ٹچ کرنے کی جرات کس میں تھی؟

چند گلیاں چھوڑ کر رینجرز اور آئی ایس آئی کے تقریباً ایک سو افسران اور مُسلح جوان ایک اور گھر کی دیواریں پھلانگ کر اور دروازے توڑ کر وہاں موجود گھر والوں کو یرغمال بنا چُکے تھے۔ ارد گرد کے سب لوگ اس گھر کے مکینوں کو جانتے تھے، آنا جانا تھا، عزت تھی، لیکن آج اُسی گھر کا سیکورٹی اور انٹیلیجنس کے افسران اور اہلکاروں نے مُحاصرہ کیا ہوا تھا۔ باہر رنگ برنگی، جلتی بُجھتی لائیٹوں والے ڈالے، ٹرک اور ایمبولینسز کھڑی تھیں، پُورا مُحلہ جاگ چُکا تھا اور پریشان تھا کہ اتنے بڑے “دہشت گرد” اُن کے ہمسائے ہیں اور اُنہیں پتا ہی نہیں چلا۔ اندر تمام گھر والوں کو مین لاؤنج میں جمع کر کے اُن کے ہاتھ پیر باندھ دئیے گئے تھے۔ دس سال کے ایک بچے نے جب اُن لوگوں سے پوچھا کہ آپ ایساکیوں کر رہے ہیں تو اُس کو زمین پر پٹخ کر اُس کے مُنہ پر بُوٹ رکھ کر اُسے بتایا گیا کہ تُمہارا باپ “دہشت گرد” ہے۔

“دہشت گرد” باپ اسلام آباد-راولپنڈی کے سنگم پر موٹروے کے کنارے ہزاروں ایکڑ پر پھیلی نجی ہاؤسنگ سوسائیٹی کا مالک تھا جس کی قیمت کھربوں میں تھی۔ اور اس “دہشت گرد” کو صرف چار ہفتے پہلے پنجاب ریونیو اتھارٹی نے سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے والے ذمہ دار بزنس مین کا ایوارڈ دیا تھا۔

اُس “دہشت گرد” کے گھر میں اُس کے 75 سالہ سُسر سے لے کر دو سال کے بچے اور بچیوں سمیت آٹھ لوگ تھے۔ سُسر، ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک اور اُس کے 20 سال کے سالے کو ہاتھ پاؤں باندھ کر پہلے گھر میں تشدد کیا گیا، گندی گالیاں دی گئیں اور پھر سر مُنہ پر کپڑا چڑھا کر، رینجرز کی گاڑیوں میں پھینکا گیا، گھر کا قیمتی سامان، کیش کرنسی، کاغذات اور لائسنسی اسلحہ ٹرکوں میں ڈالا اور کشمیر ہائی وے پر گولڑہ کے قریب ایک کمپلیکس کے تہہ خانے میں شفٹ کر دیا گیا۔ چیف صاحب آپ کو پتہ ہی ہو گا یہ جگہ کس کے پاس ہے۔

ایف 11 کے دو مزید گھروں میں ایسا ہی آپریشن کیا گیا اور وہاں سے ہاؤسنگ سوسائٹی کے دو افسران کو بھی بہیمانہ طریقے سے یرغمال بنا کر اُسی تہہ خانے میں شفٹ کر دیا گیا۔ وہاں پر اگلے کئی دن اور رات تفتیش کی آڑ میں سُسر اور ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک اور اُس کے دو ایگزیکٹوز پر تھرڈ ڈگری شدید تشدد کیا گیا۔ اور بجائے دہشت گردی کا پُوچھنے کے اُس کی ہاؤسنگ سوسائٹی کے کاغذات کی ملکیت بارے پوچھتے رہے۔

چند دنوں بعد جب اُنہیں لگا کہ اس ہاؤسنگ سوسائیٹی کے مالک کا دماغ ٹھکانے آ گیا ہے تو اُس کو ایک اور کمرے میں لے جایا گیا جہاں اُس کے سامنے اُس کی ہاؤسنگ سوسائیٹی کی پراپرٹی ٹرانسفر کے کاغذات رکھے گئے اور اُسے حُکم دیا گیا کہ اس پر دستخط کر دو۔ اُن کاغذات میں پراپرٹی کی 50 فیصد ٹرانسفر کسی “نجف” نامی شخص کے نام پر اور بقیہ 50 فیصد ٹرانسفر لندن کی ایک رہائشی “معصومہ” کے نام پر مُنتقل کی گئی تھی۔

ہاؤسنگ سوسائیٹی کے مالک نے دستخط کر نے سے پھر انکار کر دیا۔ مزید تشدد سہنا پڑا لیکن وہ نہ مانا۔ آخر کار اُس پر 780 A کے تحت دہشت گردی اور دھماکہ خیز مواد رکھنے کا پرچہ کاٹ کر سی ٹی ڈی پنڈی کے حوالے کر دیا گیا۔ اگلے تین سال کیس چلتا رہا جس میں وہ نہ صرف باعزت بُری ہوا بلکہ ہائی کورٹ نے بھی انسداد دہشت گردی عدالت کا فیصلہ برقرار رکھا۔ اور اب اپیل سپریم کورٹ کے دروازے پر مُسلسل دستک دیے جا رہی ہے۔انسداد دہشت گردی کی عدالت کے تفصیلی فیصلے میں جھوٹے الزامات لگانے پر پراسیکیوشن کی دھجیاں اُڑا دی گئی ہیں۔ 

بُوڑھا 75 سال کا سُسر جو اپنی بیٹی اور اُس کے بچوں سے ملنے دو دن کے لئے کراچی سے آیا تھا، وہ ذہنی اور جسمانی تشدد کو برداشت نہ کرسکا اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہوگیا۔ کبھی اسلام آباد واپس نہ آیا اور دو سال بعد اپنے کیس فائل اُٹھا کر اللہ کی عدالت میں پیش ہو گیا۔ تمام فیملی ممبرز تین سال کے لئے بیرون مُلک چلے گئے اور اپنے نفسیاتی مسائل کا مداوا کر کے واپس آئے۔ یہ واقعہ باجوہ ڈاکٹرائن کے دورِ فیضی کی دیگ میں سے چاول کا صرف ایک دانہ ہے جس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ سرکاری عہدے اور وردی کی آڑ میں مال سمیٹ فاشزم کس کس لیول پر جاری تھا۔‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں