14سالہ تشدد کا شکار بچی رضوانہ کی والدہ نے کہا ہے کہ جب میں اپنی بیٹی سے فون پر بات کرتی تو سب اچھے کی رپورٹ ملتی۔شمیم بی بی نے بتایا کہ جب میں اپنی بیٹی سے فون پر بات کرتے تو ملزمہ کہتی کہ آپ کی بیٹی بہت اچھی ہے ، میرا بہت خیال رکھتی ہے، پورے گھر کو صاف رکھتی ہے جیسے اس کا اپنا گھر ہو۔ بچی کی والدہ کا کہنا تھا کہ سول جج عاصم حفیظ کے گھر کام کرنے کے میری بیٹی کو صرف 10ہزار روپے ملتے تھے،جب اپنی بیٹی کو لینے گئی تو ملزمہ نے کہا کہ اپنا کوڑا کرکٹ واپس لے جاﺅ، ڈرائیور نے گاڑی سے میری بیٹی کو نیچے دھکا دیا تو میں نے بازو سے پکڑ کر جب اسے اٹھایا تو اس نے چیخ مارکر اپنا بازو چھڑایا، میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اس کا بازو درد کرتا ہے، پھر رضوانہ نے بتایا کہ جج کی بیوی روز مجھے مارتی تھی، ہاتھوں پر ، ٹانگوں پر، کمر پر ڈنڈے مارتی تھی، سر کو دیوار سے پٹختی تھی۔ شمیم بی بی نے بتایا کہ جب ہسپتال لے کر گئے تو پتہ چلا کہ سر کے زخموں میں کیڑے پڑ چکے ہیں اور جسم اندرونی چوٹوں سے مکمل طور پر چور ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ انصاف کیلئے ہر دروازہ کھٹکھٹائیں گی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ جب میں اپنی بیٹی کو وہاں سے لائی تو پہلے دن جج نے فون کرکے مجھے کہا کہ صلح کرلو میری نوکری کا سوال ہے، ویسے بھی تمہیں یہاں انصاف نہیں ملے گا، دربدر کی ٹھوکریں کھاﺅگی اور دھکے ملیں گے جس کا تمیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔خاتون نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اپنی بیٹی کو انصاف دلاکر رہیں گی۔ ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ میری بیٹی نے کہا کہ اس کو دھمکی دیتے تھے کہ کسی کو بتایا تو تمہیں گھر کی چھت سے نیچے پھینک دیں گے، جس کی وجہ سے وہ اتنا عرصہ ہمیں کچھ بھی نہ بتا سکی۔
