سابق چیئرمین نیب آفتاب سلطان کو کن دو لوگوں کی وجہ سے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا؟سینئر صحافی منصور علی خان نے بڑا دعویٰ کر دیا

سینئر صحافی منصور علی خان نے دعویٰ کیاہے کہ دو افراد کی وجہ سے سابق چیئرمین نیب آفتاب سلطان کو عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا، ان افراد کے نام کے پہلے حروف، کے کےاور ایس ایم ہیں،جن کو سیدھا کرنے کیلئے آفتاب سلنا پر دباو ڈالا جارہا تھا۔

تفصیلات کے مطابق سینئر صحافی منصور علی خان نے یوٹیوب پر اپنے وی لاگ میں ان ناموں کے پیچھے کی کہانی بیان کرتے ہوئے کہا کہ دو افراد کے کیسز پر بہت بڑا مسئلہ بنا ہوا تھا، جن کے حوالے سے آفتاب سلطان پر دباو ڈالا جارہا تھا کہ انہیں سیدھا کرو، اب جب ہم نے اپنے کبوتر سے پوچھا کہ وہ دو افراد کون ہیں جن کی وجہ سے چیئرمین نیب کو مستعفی ہونا پڑا تو کبوتر ڈر گیا اور خاموش ہو گیا،میں نے ہم اس کو سمجھایا اور کہا بھائی تھوڑی ہمت کرو  تمہیں کچھ نہیں ہوگا، تمہارا نام نہیں آئے گا،کبوتر نے جواب دیا کہ میرے پرَ جل جائیں گے۔

منصور علی خان نے کہا کہ جب میں نے اپنے ذرائع کو اصرار کیا کہ وہ نام بتائیں لیکن وہ مسلسل انکار کرتے رہے تاہم آخر کار میں نے انہیں راضی کر لیا اور پھر انہو ں نے نام تو نہیں بتائے بلکہ ان دو ناموں کے شروع کے حروف بتا دیئے۔”اس نے کہا جی میں آپ کو صرف ان کے ناموں کے شروع کے حروف دے دیتا ہوں، اب باقی خود ان کو  ‘ڈی کوڈ’ کر لیں، اس نے جو حروف دیئے ہیں وہ “کے کے” اور” ایس ایم” ہیں ۔

سینئر صحافی نے اپنی ذرائع سے ہونے والی گفتگو کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ذرائع  سے کہا کہ اس طرح تو ایس ایم اور کے کے بڑے لوگوں کے نام بنتے ہیں مطلب ایس ایم سے تو شاہد مسعود بھی بنتا ہے اور کے کے کامران خان بھی بنتا ہے ۔اس نے کہا  نہیں نہیں یہ دونوں نہیں ہیں، بے وقوفوں والی باتیں مت کریں ۔میں نے کہا  اچھا ٹھیک ہے پھر بتاو کون ہے انہوں نے کہا بھائی میں اس سے آگے نہیں جا سکتا ، ہمارے پَر جل جائیں گے مجھے مار دیا جائے گا، مجھے ڈھونڈ لیا جائے گا، میں نہیں کر سکتا،

برائے مہربانی مجھے مجبور نہ کریں، جس طرح کہتے ہیں نا کہ جو مرغی سونے کا انڈا دیتی ہے اس سے سارے انڈے نکالنے کے لیے اس کو مار نہیں دیتے۔ ایک ایک کر کے انڈا نکالتے ہیں۔ تو اس نے کہا کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں آئندہ بھی آپ کو رپورٹ لا کے دیتا رہوں۔ اسلام آباد سے اور پنڈی سے ،وہاں کے کوریڈور سے ،وہاں کے کمروں سے بڑے بڑے میٹنگ روم سے ،اس طرح کی خبریں لاتا رہوں تو برائے مہربانی مجھے مجبور نہ کریں۔ میں مر جاوں گا۔

منصور علی خان نے کہا کہ تو بھائی بات یہ ہے کہ میرے پاس جتنی انفارمیشن تھی میں نے آپ کو بتا دیے۔ دو نام اس نے کہے ہیں ایس ایم اور کے کے ۔ اب کل کو آفتاب سلطان صاحب اگر کبھی کوئی کتاب لکھیں یا وہ کوئی انٹرویو دینا چاہیں جس میں وہ یہ بتا دیں کہ بھائی جان یہ ایس ایم اور کے کے کون ہے کیونکہ میرے ذہن میں ہے ،میں نے کہا یار ایس ایم جو ہے وہ کوئی سیاستدان بھی نہیں بنتا کوئی بڑا سیاستدان کوئی یعنی ہو نا کہ کوئی پی ٹی آئی کا یا ن لیگ کا کوئی ایسا بڑا سیاستدان ہو تو میں تو نہیں کیلکولیٹ کر سکا تو

اگر آپ کے ذہن میں کوئی نام آتا ہے تو پھر آپ تجویز کر دیجیے گا کہ یہ ایس ایم اور کے کے کون ہے۔

انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں سمجھ آ رہی تو انہوں نے کہا جی اصل جو سب سے بڑی وجہ ہے نا وہ ان دو لوگوں کے حوالے سے جو کیسز ہیں اس کا مسئلہ پڑا ہوا تھا۔ اور اس کے بعد تیسری وجہ ایک یہ بھی ہے کہ جناب پاکستان تحریک انصاف کے معاملات کے اندر نا ذرا اس کو پہیے لگائیں کیسز کو پہیے لگائیں۔ اور یہ سیاسی اثرورسوخ جو ہے یہ عمران خان صاحب کے دور کے اندر بھی استعمال ہوتا تھا یہاں پہ بھی ہوتا تھا۔

شاہد خاقان عباسی صاحب کی بات جو ہے نا وہ مجھے پھر بار بار یاد آتی ہے کہ بھائی یہ جو نیب کا ادارہ ہے یہ صرف اور صرف پولیٹیکل وکٹمائزیشن کے لیے استعمال ہوتا ہے، اپنے مخالفین کو دبانے کے لیے۔یہ جو پی ٹی آئی کا معاملہ ہے، پی ٹی آئی کے اوپر ہم بھی بہت تنقید کرتے ہیں جہاں وہ غلط ہوتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ میرا خیال میں حکومت نے بندہ غلط چوز کیا تھا آفتاب سلطان،یہ آپ کے کام کا بندہ نہیں تھا آپ ان سے جو کام کروانا چاہ رہے تھے وہ یہ کام نہیں کر سکتے بندہ آپ کو کوئی اور چاہیے،، ماضی میں انہوں نے ایک آڈیو ٹیپ سنا دی تھی اور وہ آڈیو ٹیپ  دو ہزار چودہ میں نوازشریف کو سنائی گئی تھی، وہ آڈیو ٹیپ دھرنے کیلئے ٹرننگ پوائنٹ تھا،

اس آڈیو ٹیپ کو سنانے کے بعد سارا پریشر ن لیگ سے ختم ہو گیا تھا،تحریک انصاف کا کوئی بھی بندہ اس بات کو کبھی نہیں مانے گا، لیکن  اس آڈیو ٹیپ نے بالکل بازی پلٹ دی تھی تو وہ آڈیو ٹیپ لانے والے آفتاب سلطان تھے تو اس لیے یہ لوگ امید کر رہے تھے کہ یہ ہمارا بندہ ہے اور ہم اسے جو بھی کہیں گے وہ یہ کر دیں گے،اس وقت بھی وہی حالات ہیں  ن لیگ مہنگائی کی وجہ سے ،اپنے گرتے ہوئے ووٹ بینک کی وجہ سے، مریم نواز کی وجہ سے ایک بہت میں پریشر میں  آئی ہوئی ہے

 کہ ہم اپنا ووٹ بینک کس طرح اکٹھا کریں تو اس کا ایک سب سے پرانا پاکستان کا پرانا ترین نائنٹین ففٹی سے چلتا ہوا ایک پرانا فارمولا ہے کہ جناب آپ کے جو مخالفین ہیں ان کا “مکو” ٹھپ دیں،

آپ کے جتنے اس طرح کے ادارے ہوتے ہیں چاہے نیب ہو جا، ایف آئی اے ہو جا، آپ کی پولیس ہو جا، ان کا استعمال آپ کریں اور اس کے بعد آپ دیکھیں کیا ہوتا ہے تو قانون اور آئین کے مطابق چلنا زیادہ تر سیاسی جماعتوں کو پسند نہیں ہوتا چاہے وہ عمران خان ہو چاہے وہ نواز شریف یا شہباز شریف، تو یہاں پہ بھی آفتاب سلطان کے ساتھ ایک یہ مسئلہ بھی چل رہا تھا کہ جی اپنی مرضی سے جو ہے وہ کیسز کیوں نہیں چل رہے جس کی وجہ سے اختلاف ہوا ۔ اب آج جو شہباز شریف صاحب سے ان کی ملاقات ہوئی اس کے اندر بھی جو ہے وہ بھرپور کوشش کی گئی ان کو منانے کی لیکن  انہوں نے کہا کہ جی میں ایسے ماحول میں کام کر ہی نہیں سکتا کیونکہ وہ ایماندار آدمی ہے،قانون پر چلنے والا بندہ جو ہوتا ہے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں