بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیل کی یہودی بستیوں کے معاملے پر اقوام متحدہ میں ممکنہ سفارتی بحران کو ٹال دیا ہے، جس کے باعث خطرہ تھا کہ رواں ہفتے یوکرین پر روسی حملے کو ایک سال مکمل ہونے پر مغربی کوششیں پس پردہ چلی جائیں گی۔
خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق اس صورت حال سے واقف متعدد سفارت کاروں نے اتوار کو بتایا کہ امریکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں فلسطینیوں اور ان کے حامیوں کی جانب سے پیش کی جانے والی ایک متنازع قرارداد کو روکنے میں کامیاب رہا ہے، جس میں بستیوں کی توسیع کے لیے اسرائیل کی مذمت اور مستقبل کی سرگرمیوں کو روکنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ قرارداد کے مسودے پر ووٹنگ اور ممکنہ طور پر امریکی ویٹو سے بچنے کے لیے انتظامیہ، اسرائیل اور فلسطینیوں دونوں کو قائل کرنے میں کامیاب رہی کہ وہ اصولی طور پر کسی بھی یکطرفہ اقدام کو چھ ماہ کے لیے روکنے پر اتفاق کریں۔
سفارت کاروں کے مطابق اسرائیل کے لیے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ کم از کم رواں برس اگست تک بستیوں کی توسیع نہ کرنے کا معاہدہ کرے گا۔
دوسری جانب سفارت کاروں کے مطابق فلسطین کے لیے اس کا مطلب، اگست تک اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں جیساکہ عالمی عدالت، بین الاقوامی فوجداری عدالت اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں اسرائیل کے خلاف کارروائی نہ کرنے کا معاہدہ ہے۔
سفارت کاروں کے بقول قرارداد کی بجائے سلامتی کونسل ممکنہ طور پر پیر کو قرارداد کی طرز پر ایک صدارتی بیان منظور کرے گی۔
صدارتی بیانات، جن کے لیے کونسل کے تمام 15 ممالک کی حمایت درکار ہوتی ہے، کونسل کے ریکارڈ کا حصہ تو بن جاتے ہیں لیکن قانونی طور پر ان کی پابندی نہیں ہوتی۔
ان سفارت کاروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ تفصیلات ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتائیں کیونکہ وہ انتہائی حساس مذاکرات پر بات کرنے کے مجاز نہیں تھے۔
چونکہ 2024 کے امریکی صدارتی انتخابات قریب آ رہے ہیں لہذا صدر جو بائیڈن کے لیے تصفیے کی قرارداد کو ویٹو کرنا سیاسی سردرد بن سکتا تھا۔
بائیڈن اسرائیلی بستیوں کے خلاف اپنی مخالفت اور اسرائیل فلسطین تنازع کے دو ریاستی حل کی حمایت کے درمیان توازن پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جس کے لیے وہ فلسطینیوں کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی غرض سے اقدامات کر رہے ہیں، جنہیں ان کے ترقی پسند حامیوں کی بہت زیادہ حمایت حاصل ہے۔
اگرچہ انتظامیہ پہلے ہی اسرائیل کی جانب سے بستیوں میں توسیع کی مذمت کر چکی ہے اور فلسطینی قرارداد کو ’بے فائدہ‘ قرار دے چکی ہے، لیکن کانگریس کے اعلیٰ رپبلکنز نے بائیڈن کو متنبہ کیا ہے کہ ویٹو کرنے سے ان کے قانون سازی کے ایجنڈے پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔
چونکہ مغرب روس کے ساتھ جنگ میں یوکرین کی حمایت چاہتا ہے، لہذا ویٹو کرنے سے فلسطینیوں کے حامی اقوام متحدہ کے رکن ممالک الگ بھی ہو سکتے ہیں، جیسا کہ متحدہ عرب امارات، جو سلامتی کونسل میں قرارداد کی سرپرستی کر رہا تھا۔
امریکہ متحدہ عرب امارات اور فلسطینیوں سے ہمدردی رکھنے والے دیگر ممالک کی طرف دیکھ رہا ہے تاکہ وہ جمعرات کو 193 رکنی جنرل اسمبلی میں ایک قرارداد کے حق میں ووٹ دیں جس میں یوکرین پر حملہ کرنے پر روس کی مذمت کی جائے گی اور جنگ بندی اور تمام روسی افواج کے فوری انخلا کا مطالبہ کیا جائے گا۔
یہ معاہدہ اتوار کو بائیڈن انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیداروں کی فلسطینی، اسرائیلی اور متحدہ عرب امارات کے رہنماؤں کے ساتھ کئی روز تک جاری رہنے والی بات چیت کے بعد طے پایا تھا۔
سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ اس میں وزیر خارجہ انٹنی بلنکن، اقوام متحدہ میں امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ، قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان، سلیوان کے نائب بریٹ میک گرک، مشرق وسطیٰ کے لیے اعلیٰ سفارت کار باربرا لیف اور فلسطینی امور کے لیے خصوصی ایلچی ہادی امر کی بھرپور کوششیں شامل ہیں۔
ایک قرارداد کے لیے فلسطینیوں کا دباؤ اس وقت سامنے آیا جب اسرائیل کی نئی دائیں بازو کی حکومت نے مغربی کنارے میں نئی بستیوں کی تعمیر اور اس سرزمین پر اپنے اختیارات بڑھانے کے عزم کا اعادہ کیا۔
اسرائیل نے 1967 میں مشرق وسطیٰ کے ساتھ جنگ میں مشرقی بیت المقدس اور غزہ کی پٹی کے ساتھ مغربی کنارے پر قبضہ کر لیا تھا۔
اقوام متحدہ اور زیادہ تر بین الاقوامی برادری اسرائیلی بستیوں کو غیر قانونی اور دہائیوں سے جاری اسرائیل فلسطین تنازع کے خاتمے کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتی ہے۔
تقریباً سات لاکھ اسرائیلی آباد کار مغربی کنارے اور اسرائیل کے زیر قبضہ مشرقی مقبوضہ بیت المقدس میں رہتے ہیں۔
دسمبر 2016 میں سلامتی کونسل نے اسرائیل سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ’مشرقی مقبوضہ بیت المقدس سمیت مقبوضہ فلسطینی علاقے میں آبادکاری کی تمام سرگرمیاں فوری اور مکمل طور پر بند کرے۔‘
بیان میں اس بات پر زور دیا گیا کہ آبادکاری کی سرگرمیوں کو روکنا ’دو ریاستی حل کے لیے ضروری ہے۔‘
یہ قرارداد اس وقت منظور کی گئی جب سابق امریکی صدر براک اوباما کی انتظامیہ ووٹنگ میں غیر حاضر رہی جو کہ امریکہ کی جانب سے اپنے قریبی اتحادی اسرائیل کو اقوام متحدہ میں کارروائی سے بچانے کی دیرینہ روایت کے برعکس ہے۔ اس روایت میں عرب حمایت یافتہ قراردادوں کو ویٹو کرنا بھی شامل ہے۔
اس کے باوجود یوکرین کی جنگ زوروں پر ہے۔
بدھ کو یوکرین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، قیدیوں اور اغوا شدہ بچوں پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ایک اجلاس منعقد کر رہا ہے۔
جمعرات کو ہونے والی ووٹنگ سے قبل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بدھ کی سہ پہر سے شروع ہونے والے اجلاس میں، درجنوں سپیکرز ہوں گے، جن میں 20 سے زائد وزرا کی شمولیت کا بھی امکان ہے۔
جمعے کو یوکرین پر روسی حملے کو ایک سال مکمل ہونے کے موقع پر سلامتی کونسل اس حملے اور اس کے اثرات کے بارے میں وزارتی اجلاس منعقد کرے گی۔