بیرون ملک سے درآمد کی جانے والی لگژری اشیا پر سیلز ٹیکس 17 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد کیا جارہا ہے جس کا نوٹیفکیشن جلد جاری کردیا جائے گا‘وفاقی وزات خزانہ کے مطابق منی بجٹ میں لگژری اشیاءپر سیلز ٹیکس 17 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد کرنے کی منظوری طلب کی گئی ہے. دستاویزات کے مطابق سینکڑوں لگژری اشیاءپر سیلز ٹیکس کی شرح 25 فیصد کی جا رہی ہے، سیلز ٹیکس بڑھانے سے 4 ماہ میں 15 ارب روپے کی آمدن متوقع ہے مذکورہ لگژری اشیاءمیں 500 ڈالر مالیت سے زائد کے امپورٹڈ موبائل فون شامل ہیں جبکہ امپورٹڈ الیکٹرونکس اشیاءپر بھی سیلز ٹیکس 25 فیصد کیا جا رہا ہے.
دستاویز کے مطابق امپورٹڈ میک اپ کے سامان، پالتو جانوروں کی امپورٹڈ خوراک، امپورٹڈ برانڈڈ شوز، برانڈڈ پرس، امپورٹڈ شیمپو، صابن، لوشن، شیونگ کریم، شیونگ جیل، امپورٹڈ سن گلاسز، پرفیومز، امپورٹڈ پرائیوٹ اسلحہ، امپورٹڈ برانڈڈ ہیڈ فونز، آئی پوڈ اور اسپیکرز پر سیلز ٹیکس 25 فیصد کیا جا رہا ہے. اس کے علاوہ امپورٹڈ ٹریولنگ بیگ، سوٹ کیس، لگژری برتن، امپورٹڈ ٹائلز، سینیٹری کا سامان، امپورٹڈ فرنیچرز اور لکڑی کے شو پیس، امپورٹڈ منرل واٹر، انرجی ڈرنکس، امپورٹڈ جوسز، امپورٹڈ گاڑیوں، موسیقی کے امپورٹڈ آلات، امپورٹڈ بسکٹ، کیک اور بیکری اشیاءشامل ہیں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) ذرائع کا کہنا ہے کہ سیلز ٹیکس میں اضافے کا نوٹیفکیشن جلد جاری کردیا جائے گا.ادھر ملک کے بڑے سٹورزاور برآمدکندگان نے حکومت سے ان اشیاءکے متبادل کے فہرست جاری کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں ان اشیاءکی تیاری پر لاگت بیرون ممالک سے زیادہ ہے جس کی وجہ سے کارخانہ داروں نے ان اشیاءکی مقامی طور پر تیاری بند کررکھی ہے کیونکہ بجلی‘گیس سمیت ٹیکسوں میں اضافے اور خام مال کی امپورٹ پر بلاجوازٹیکسوں کی وجہ سے ان اشیاءکی لاگت مقامی طور پر بڑھ جاتی ہے .انہوں نے کہا کہ مقامی اشیاءکے مقابلے میں امپورٹڈاشیاءمارکیٹ میں سستے داموں دستیاب ہیں جس کا فائدہ عام شہریوں خصوصا تنخواہ دار طبقے کو پہنچتا ہے ان کا کہنا ہے کہ لاگت کے علاوہ مقامی طور پر تیار شدہ اور درآمدشدہ اشیاءکی کوالٹی میں بہت فرق ہوتا ہے اس لیے ہم مشاورت کررہے ہیں کہ ملک کے تمام بڑے سٹور ہڑتال پر جائیں اور مطالبات کی منظوری تک مارکیٹوں میں تالہ بندی رہے گی انہوں نے کہا کہ لاکھوں لوگوں کا روزگار اس کاروبار سے وابستہ ہے کوئی بھی حکومت پہلے متبادل کا بندوبست کرتی ہے پھر ایسے اقدامات کی طرف جاتی ہے مگر یہاں الٹ ہوتا ہے حکومت بغیرکسی منصوبہ بندی اور متبادل کے پابندیاں عائدکرنا شروع کردیتی ہے.