صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے تاریخی اسلامیہ کالج میں اتوار کو تکرار کے بعد مبینہ طور پر چوکیدار نے انگلش ڈپارٹمنٹ کے لیکچرار کو گولی مار کر قتل کر دیا ہے۔
کیمپس تھانہ حکام کے مطابق، لاش ہسپتال منتقل کر دی گئی ہے اور چوکیدار کی گرفتاری کے لیے ان کے گھر پر چھاپہ بھی مارا گیا ہے تاہم تاحال واقعے کی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی ہے۔
ایس ایچ او داؤد خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ چوکیدار شیر محمد کے گھر پر چھاپہ مار کر ان کے بھائی کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ چوکیدار کا تعلق پشاور کے سربند علاقے سے ہے۔
ایس ایچ او کے مطابق ’چوکیدار اور پروفیسر بشیر کی ایک ماہ قبل بھی زبانی تکرار ہوئی تھی، اور اتوار 19 فروری کو دوبارہ دونوں کا آمنا سامنا ہوا، اور تکرار ہوئی، جس کے بعد دونوں نے ایک دوسرے پر پستول نکال کر فائرنگ کی۔‘
’فائرنگ کے واقعے کے بعد چوکیدار موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔‘
ایس ایچ او داؤد خان نے مزید بتایا کہ جائے وقوعہ سے پانچ گولیوں کے شیل ملے ہیں، جبکہ مقتول کے ہاتھ میں ان کی پستول بھی تھی۔
داؤد خان کے مطابق تاحال یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ ان دونوں افراد کے درمیان تکرار کس بات پر ہوئی۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اسلامیہ کالج کے منتظمین سے بھی اس بارے میں جاننے کے لیے رابطہ کیا جس کے جواب میں اسلامیہ کالج کے پرووسٹ سید کمال نے بتایا کہ انتظامیہ پولیس کے ساتھ واقعے کے حوالے سے مصروف ہے اور وہ تاحال کسی قسم کی اضافی معلومات شریک نہیں کر سکتی۔
کیمپس تھانہ کے محرر لیاقت شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس سے قبل جب پروفیسر اور چوکیدار کی لڑائی ہوئی تھی تو ادارے کے دیگر عملے نے دونوں کے درمیان صلح صفائی کروائی تھی۔
پروفیسر بشیر سے متعلق ان کی ایک طالبہ فائزہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بشیر احمد اپنی خوش مزاجی کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔
’میں حیران ہوں کہ سر کی کسی کے ساتھ ایسی لڑائی کیسے ہوسکتی ہے کہ بات فائرنگ اور قتل تک پہنچ جائے۔ ان کو ہم نے کبھی بھی غصے میں نہیں دیکھا۔ بلکہ ہر وقت ہنسی مذاق کرتے رہتے تھے۔ وہ ہر دلعزیز استاد تھے۔‘