مغل سلطنت کی طاقتور خواتین جن کو غیر معمولی اختیارات حاصل تھے

‘ایسان دولت بیگم صاحب رائے اور تدبیر تھیں۔ وہ بڑی دُور اندیش اور عقل مند خاتون تھیں۔ اکثرکام انھی کی مشورے سے ہوتے تھے۔’

یہ الفاظ مغل سلطنت کے بانی ظہیرالدین محمد بابر کے ہیں جو انھوں نے اپنی یادداشت ’بابرنامہ’ میں اپنی نانی کے بارے میں کہے۔ اسی کتاب کے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ سنہ 1494 میں بابر کے والد کی موت کے بعد سے ایسان دولت بیگم ان کی رہنما اور سیاسی بحرانوں پر قابو پانے میں ان کی مددگار رہیں، اصل طاقت اور معاملات ان کے ہاتھ میں تھے۔

مغل شہنشاہ والدہ کی پالکی بھی اٹھاتے

مغل دور میں، خاتون اوّل عام طور پر شہنشاہ کی والدہ ہوتی تھیں نہ کہ ان کی ملکہ، سوائے نور جہاں اور ممتاز محل کے۔ والدہ کی موت کے بعد ہی ملکہ ان کی جگہ لیتیں۔ بابر سے لے کر تمام مغل بادشاہوں نے اپنی ماؤں کا بہت احترام کیا۔

ایس ایم ایڈورڈز، ’بابر، ڈائرسٹ اینڈ ڈسپوٹ‘ میں لکھتے ہیں کہ ایسان دولت بیگم (بابر کی نانی) اور قتلغ نگار نے بابر کی زندگی کو تشکیل دینے میں بہت بڑا کردار ادا کیا۔ بابر کو فکری صلاحیت اپنی والدہ سے وراثت میں ملی تھی۔

رادھے شیام اپنی کتاب ’بابر‘ میں لکھتے ہیں کہ ’جدوجہد کے دور میں والدہ قتلغ نگار خانم بھی بابر کی قریبی مشیر رہیں۔ ترکی اور فارسی میں تعلیم یافتہ، خانم ان کی زیادہ تر مہمات اور بے تخت دور میں ان کے ساتھ تھیں۔‘

بدخشاں اور ٹرانسیکسونیا کی دور دراز مہمات میں بابر کو ایسا ہی ساتھ اپنی بیوی اور ہمایوں کی والدہ ماہم بیگم کا بھی میسر رہا۔

رومرگوڈن کے مطابق ماہم طاقت ور اور تنک مزاج تھیں اور لگتا یہ ہے کہ بابر انھیں کسی بات سے منع نہیں کرتے تھے۔

بی بی مبارکہ بھی بابرکی چاہی جانے والی بیویوں میں سے ایک تھیں۔ ان سے شادی سے یوسف زئی قبیلے سے بابر کے تعلقات میں تناؤ ختم ہوا اور افغانستان پرقبضہ مضبوط ہوا۔

تاہم ماہم بیگم کو اعلیٰ مقام حاصل تھا اور تخت پر اپنے شوہر کے پہلو میں بیٹھنے کی اجازت تھی۔

محقق ایس اے ترمذی لکھتے ہیں کہ ہمایوں خوش قسمت تھے کہ انھیں ان کی والدہ ماہم بیگم کی سرپرستی میسر آئی۔ ’وہ پڑھی لکھی، ذہین اور وسیع النّظر تھیں۔‘

ہمایوں کی پھوپھی گل بدن بیگم کی کتاب ’ہمایوں نامہ‘ 16ویں صدی کے مغل ہندوستان میں کسی خاتون کی لکھی واحد معلوم کتاب ہے۔ گل بدن کی پرورش اور تعلیم بھی ماہم بیگم ہی نے کی تھی۔

جب ہمایوں کو بدخشاں کے گورنر کی حیثیت سے پہلی ذمہ داری ملی تو ماہم بیگم تربیت کے اس دور میں معاملات چلانے میں ان کے ساتھ رہیں۔ ہمایوں کی جانشینی میں مدد ان کے اہم مقام کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

مصنف روبی لال نے برطانوی لکھاری اے ایس بیورج کے حوالے سے لکھا ہے ’بیوی اور مادر ملکہ دونوں حیثیتوں میں، ماہم حکمت، حیثیت اور اختیار رکھنے والی ایک بزرگ کی نسبت ایک ہوشیار خاتون لگتی ہیں جو خود سے چھوٹوں کو مشورہ دینا اور ان کی رہنمائی کرنا، اور اپنے خاندان کے نام اور عزت کو برقرار رکھنا اپنا فرض سمجھتی تھیں۔‘

ان کے علاوہ سیاسی امور میں حمیدہ بانو بیگم کا کردار بھی اہم تھا جو ہمایوں سے شادی پر مشکل سے راضی ہوئی تھیں

’ہمایوں نامہ‘ میں اس واقعے کی تفصیل یوں بیان کی گئی ہے: ’40 دن تک حمیدہ بانو بیگم کی طرف سے [شادی کے لیے] حیل و حجت رہی اور وہ کسی طرح راضی نہیں ہوتی تھیں۔ آخر میری والدہ دلدار بیگم نے ان سے کہا کہ آخر کسی نہ کسی سے تو بیاہ کرو گی۔ پھر بادشاہ سے بہتر اور کون ہو سکتا ہے؟ بیگم نے جواب دیا، ہاں میں کسی ایسے سے بیاہ کروں گی جس کے گریبان تک میرا ہاتھ پہنچ سکے۔ نہ کہ ایسے آدمی سے جس کے دامن تک بھی، میں جانتی ہوں، کہ میرا ہاتھ نہیں پہنچ سکتا۔ میری والدہ نے انھیں بہت سی نصیحتیں کیں اور آخر کار انھیں راضی کر لیا۔‘

انھیں ان کے بیٹے اکبر نے مریم مکانی کا خطاب دیا تھا۔

شادی کے بعد حمیدہ بانو نے ہمایوں کے ساتھ ہی سختی اور جلاوطنی کاٹی۔ امرکوٹ، سندھ میں اکبر کی پیدائش کے ایک ہی سال بعد انھیں دایہ کے پاس چھوڑ کر قندھار اور پھر ہمایوں کے ساتھ فارس (ایران) کا خطرناک سفر کیا۔

انھوں نے ہمایوں کے بااعتماد امیر منعِم خان کی پوتی سے اکبر کی شادی طے کر کے بیرم خان کی خواہش کے خلاف سیاسی اتحاد کیا۔ حمیدہ بانو شاہی حرم میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھیں اور انھیں فرمان جاری کرنے کا اختیار تھا۔

ہمایوں نامہ کے مطابق تاج پوشی کی تقریب، جسے جشنِ جلوس کہا جاتا، کے بعد شہنشاہ پہلے اپنی ماں اور دیگر رشتہ داروں سے ملنے جاتے تھے۔

ابوالفضل نے لکھا ہے کہ اکبر اپنی والدہ مریم مکانی کا بہت احترام کرتےتھے اور ان کے استقبال کو دارالحکومت سے باہر بھی آجاتے تھے۔

ایک دفعہ جب اکبر کی والدہ کو پالکی میں لاہور سے آگرہ لے جایا گیا۔ اکبر نے ان کے ساتھ سفر کرتے ہوئے ان کی پالکی کو ایک جگہ اپنے کندھوں پر اٹھایا اور دریا کے ایک کنارے سے دوسری طرف لے گئے۔

’اکبر نامہ‘ میں لکھا ہے کہ ایک بار شہزادہ سلیم کو ضرورت سے زیادہ شراب نوشی اور بری صحبت کی وجہ سے کچھ عرصہ شہنشاہ اکبر نے شرفِ باریابی نہیں بخشا۔ لیکن مریم مکانی (حمیدہ بانو بیگم) کی درخواست پر انھیں کورنِش بجانے کی اجازت دی گئی۔

شہزادہ سلیم نے ایک بار پھر بغاوت کی اور الہٰ آباد میں شاہی عہدہ سنبھال لیا۔ اکبر نے معاملے کے حل کے لیے اپنے سب سے قابل اعتماد مشیر ابوالفضل کی مدد لی۔ لیکن راستے میں ابوالفضل کو سلیم نے قتل کروا دیا۔ اکبر کو شدید دکھ پہنچا اور وہ غضب ناک ہوگئے۔

یہ مریم مکانی اور گل بدن بیگم ہی تھیں جنہوں نے سلیم کی بخشش کی بھیک مانگی۔ اکبر نے ان کی خواہش کو قبول کیا اور اپنی پھوپھی زاد اور بیوی سلیمہ سلطانہ بیگم سے کہا کہ وہ شہزادے کو ان کی معافی کی خبر دیں اور انھیں دربار میں پیش کریں۔ سلیمہ اور ماہ چوچک بیگم کی بیٹی بخت النسا نے دونوں کی صلح کروائی۔

یہی سلیم، شہنشاہ جہانگیر بنے۔

تزکِ جہانگیری کے مطابق جہانگیر اپنی والدہ جودھا بائی (مریم الزمانی ) کا بہت احترام کرتے۔ ان ہی کے گھر میں شہنشاہ کو تولا جاتا اور شہزادوں کی شادیاں ہوتیں۔

بہنوں سے محبت

ماہم بیگم کی موت کے بعد بابر نے اپنی بڑی بہن خانزادہ بیگم کو پادشاہ بیگم کے خطاب کے ساتھ حرم کی سربراہ بنایا۔ گل بدن انھیں ’محبوب ترین خاتون‘ یا ’آقے جانم‘ کہہ کر مخاطب کرتیں۔

ہمایوں کے دور میں بھی وہ اسی عہدے پر رہیں۔ ہمایوں کے زمانے میں، خانزادہ بیگم نے امن ساز کا کردار ادا کیا اور ہمایوں اور ان کے بھائیوں ہندال، کامران اور عسکری کے درمیان تنازعات کو حل کرنے کی کوشش کی۔

گل بدن بیگم نے ہمایوں نامہ میں کئی مثالیں دی ہیں جو بابر اور ہمایوں کی اپنی بہنوں سے محبت کو ظاہر کرتی ہیں۔ اگر کوئی بہن بیوہ ہوجاتی تو بھائی اسے پناہ دینے کے لیے ہمہ وقت موجود رہتا۔

جب گل چہرہ بیگم بیوہ ہوگئیں تو ہمایوں نے انھیں آگرہ واپس لانے کا حکم دیا۔ جہانگیر نے اپنی یادداشتوں میں اپنی بہنوں شکر النسا بیگم اور ارم بانو بیگم کا پیار سے ذکر کیا ہے، حالانکہ وہ مختلف ماؤں سے پیدا ہوئی تھیں۔

مغل خاندان کی بیٹیاں

مغل بادشاہ اپنی بیٹیوں سے بہت پیار کرتے تھے اور ان کی تعلیم اور ان کی صلاحیتوں کی آبیاری کے لیے بہترین انتظامات کرتے تھے۔

لیکن ان میں سے بہت سی، خاص طور پر اکبر کے زمانے کے بعد، غیر شادی شدہ رہیں۔ بہت سے مصنفین اور غیر ملکی سیاحوں جیسے مانوچی نے اس روایت کو شروع کرنے کے لیے اکبر کو مورد الزام ٹھہرایا ہے، لیکن بہت سے لکھاری اس سے متفق نہیں کیونکہ اکبر نے اپنی بہنوں اور بیٹیوں کی شادی اہل مردوں سے کروائی تھی۔ البتہ اکبر قریبی رشتے داروں میں شادی ناپسند کرتے۔

شاہ جہاں کے زمانے تک شہزادیوں کی شادی پر کچھ پابندیاں نظر آتی ہیں۔ غالباً یہ تخت کے دعوے داروں کی تعداد محدود رکھنے کے لیے کیا گیا تھا۔ لیکن اورنگ زیب نے اپنی کچھ بیٹیوں اور بھانجیوں کی شادی بہن بھائیوں کے بچوں سے کروائیں۔

مغل شہزادیوں کی تعلیم کا اہتمام ہوتا۔

بابر کی بیٹی، جنھوں نے خود کو ادبی سرگرمیوں میں مصروف رکھا، وہ گل بدن بیگم تھیں۔ وہ اپنی مشہور تصنیف ہمایوں نامہ کے لیے جانی جاتی ہیں۔

اکبرنامہ کے مطابق حاجی بیگم کے نام سے مشہور ہمایوں کی بیوی، بیگہ بیگم، ایک پڑھی لکھی خاتون تھیں۔ وہ لکھنے کی تکنیک سے واقف اور طب کا گہرا علم رکھتی تھیں۔

ہمایوں کی بھانجی سلیمہ سلطانہ بیگم فارسی زبان و ادب پر عبور رکھتی تھیں۔

شہنشاہ اکبر کی اپنی رسمی تعلیم بہت کم تھی۔ لیکن وہ تعلیمی عمل اور شہزادوں اور شہزادیوں کی تعلیم میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنے فتح پور سیکری محل میں لڑکیوں کا سکول قائم کیا۔ مغل شہزادیوں کو محلات کے اندر پڑھی لکھی خواتین یا بوڑھے مرد اتالیق تعلیم دیتے۔

اکبر ہی کے دور میں ایک خاتون جان بیگم کو تفسیر قرآن لکھنے پر پانچ ہزار دینار شہنشاہ ہندوستان کی جانب سے انعام میں دیے گئے۔

شاہ جہاں اور ملکہ ممتاز بیگم کی بیٹی جہاں آرا کا علم و فضل ایک عالم میں شہرت رکھتا تھا۔ ان کا لکھا چشتی سلسلے کے بزرگوں کا تذکرہ ’مونس الارواح‘ آج بھی محققین کے لیے ایک نہایت کار آمد کتاب ہے۔

مغل شہزادیوں میں زیب النسا مخفی ایک نامور اور صاحب دیوان شاعرہ گزری ہیں۔ ان کی فارسی غزلیات اعلیٰ پائے کی تھیں۔

سوما مکھرجی لکھتی ہیں کہ اگر ملکہ بے اولاد ہوتیں تو انھیں اجازت تھی کہ وہ کسی اور خاتون کے بچے کو اپنا لیں۔

ہمایوں کی والدہ ماہم بیگم ان کی پیدائش کے بعد چار بچے کھو چکی تھیں۔ انھیں دوسری بیوی دلدار بیگم کے بچے ہندال اور گل بدن دیے گئے اور انھوں نے ان کی پرورش کی۔ اکبر کی بے اولاد پہلی بیوی رقیہ سلطان بیگم کو بچے کی پیدائش کے بعد شہزادہ سلیم کا بیٹا خرم دیا گیا۔

ایرا مکھوٹی کے مطابق اکبر نے بیواؤں کو دوبارہ شادی کرنے کی ترغیب دی اور بیوگی اور طلاق کو بدنما داغ نہیں سمجھا۔ ان کے سامنے خانزادہ بیگم کی روشن مثال موجود تھی، دو بار طلاق ہو چکی تھی، اور پھر بھی ان کی بہت زیادہ عزت کی جاتی تھی۔

ابتدائی طور پر ستی ہونے والی خواتین کی تعریف کرنے کے بعد، وہ اس نظام سے بیزار ہو گئے تھے اور اس کی حمایت کرنے والے مردوں پر تنقید کرتے۔

جب بیٹیاں پیدا ہوئیں، تو ابوالفضل کے مطابق اکبر نے بیٹوں کی پیدائش کی طرح وسیع پیمانے پر جشن منانے کا حکم دیا۔

شہنشاہ اکبر معاشرے میں کم عمری کی شادیوں کے رواج کو ناپسند کرتے تھے۔ اکبر نے شادیوں کے حوالے سے ضابطے جاری کیے اور شہروں میں کوتوالوں کی ڈیوٹی لگا کر جہاں تک ممکن ہو سکے اس طرح کے طریقوں کو روکنے کی کوشش کی۔

خواتین کا بلا تفریق احترام

مغل بادشاہوں کا احترام اپنی والدہ یا بہن ہی تک محدود نہیں تھا۔

بابر نے بادشاہ ابراہیم لودھی کو شکست دی تو ان کی والدہ سے عزت کا سلوک کیا، انھیں زمین اور محل تفویض کیا۔ بابر انھیں ’ماں‘ کہتے۔ لیکن انھوں نے سازش سے شہنشاہ کو کھانے میں زہر دے دیا۔

شہنشاہ نے بہت کم کھانا کھایا تھا مگر بیمار پڑ گئے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ علامات ابراہیم کی والدہ کی طرف سے دیے گئے زہر کی ہیں۔ اس کے باوجود بابر نے نرمی کا مظاہرہ کیا۔

سازش میں شامل دیگر افراد کو تو مروا دیا لیکن خاتون کو کابل بھیج دیا۔ تاہم، وہ اپنے محافظوں سے بھاگ نکلیں اور دریائے سندھ میں چھلانگ لگا کر اپنی جان لے لی۔

اپنی والدہ کے علاوہ، شہنشاہ حرم کی دیگر بزرگ خواتین کا بھی بہت احترام کرتے تھے۔ بابر اکثر خود ان کے پاس جاتے۔ ان کی آمد کی خبر سن کر ان کا استقبال کرنے باہر اور بعض اوقات پیدل ہی نکل پڑتے۔

ہمایوں نامہ میں لکھا ہے کہ وہ بزرگ خواتین سے ملنے جمعے کے دن جاتے۔ ایک روزشدید گرمی تھی۔ ملکہ نے کہا لُو چل رہی ہے۔ کیا ہوگا اگر اس ایک جمعے وہاں نہیں جائیں گے۔ بابر نے جواب دیا کہ جن کے باپ اور بھائی نہیں ہیں اگر ان کی دل جوئی میں نہیں کروں گا توکون کرے گا۔

اپنے والد کی طرح ہمایوں بھی ذاتی طور پر حرم کی بزرگ خواتین سے ملنے جاتے اور ان سے شفقت سے بات کرتے۔ ان کے اعزاز میں تقریبات کا بھی اہتمام کرتے۔ اکبر بھی اپنی پھوپھی گل بدن کو بہت عزت دیتے۔ گل بدن نے ’ہمایوں نامہ‘ ان ہی فرمائش پرلکھی تھی۔

زمینیں، پیسہ اور خیرات

حرم کی خواتین کو پرگنہ (بہت سے موضعوں پر مشتمل زمین جس سے محصول اکٹھا ہوتا) دینے کا رواج بابر نے شروع کیا تھا۔

انھوں نے ابراہیم لودھی کی والدہ کو 7 لاکھ مالیت کا پرگنہ عطا کیا تھا۔ انھوں نے حرم کی خواتین کو کچھ مکانات اور زمینیں بھی تفویض کیں۔ ہمایوں صوفیانہ دعوت میں حرم کی خواتین کو اشرفیوں اور شاہ رخیوں کی شکل میں قیمتی تحائف دیتے۔

ان رقوم سے شاہی خواتین اپنی روزمرہ کی ضروریات کے علاوہ خیراتی کام اور ضیافتوں کا اہتمام بھی کرتی تھیں۔

بابر کی وفات کے بعد ماہم بیگم روزانہ دو بارلوگوں کو کھانا دیتیں ۔انھوں نے 1530 میں ہمایوں کے تخت پر فائز ہونے پر ایک عظیم الشان دعوت کا اہتمام کیا اور 7000 افراد کوخلعتیں دیں۔

ہمایوں کی بیوی حاجی بیگم نے بھی اپنے ذاتی الاؤنس کا کافی حصہ خیرات میں خرچ کیا۔ حج پرمکہ میں بہت زیادہ خیرات تقسیم کی۔ حرم کی یہ شاہی خواتین خاص موقعوں پر اپنے عزیزوں کو قیمتی تحائف بھی دیتی تھیں۔

رضاعی مائیں بھی کم اہم نہیں تھیں

مغل گھرانے میں حقیقی ماؤں کے علاوہ رضاعی مائیں بھی تھیں۔ اَنگَہ کہلائی جانے والی ان رضاعی ماؤں کا مغل بہت احترام کرتے تھے۔

اکبرکی رضاعی ماں ماہم انگہ تو شہنشاہ کے بعد سب سے زیادہ بااختیار تھیں۔

جہانگیر نے اپنی یادداشتوں پرمبنی کتاب ’تزک جہانگیری‘ میں اپنی رضاعی والدہ کی وفات کی خبر ان الفاظ میں دی ہے:’ذی القعدہ کے مہینے میں قطب الدین خان کوکا کی ماں جنھوں نے مجھے اپنا دودھ پلایا تھا اور وہ میرے لیے ماں کی طرح تھی یا کبھی میری اپنی مہربان ماں سے زیادہ مہربان۔۔۔ خدا کی رحمت میں چلی گئیں۔ میں نے ان کے جنازے کی چارپائی پاؤں کی طرف سے اپنے کندھوں پر رکھی اور قبر تک لے گیا۔ شدید رنج و غم میں کچھ دنوں تک نہ کھانے کی طرف مائل ہوا اور نہ کپڑے بدلے۔‘

شاہی خواتین کے اختیارات

افضل حسین لکھتے ہیں مغل حرم میں ہندو، مسلمان، عیسائی، ایرانی، تورانی، پرتگالی اور بہت سی دوسری یورپی قومیتوں اور ملک کے مختلف خطوں کی خواتین تھیں۔ اس طرح وہ بالواسطہ طور پر اپنے شریک حیات اور دوسروں کو مختلف زبانیں سکھاتیں اورمختلف علاقائی ثقافتوں اورفنونِ لطیفہ سے آشنا کرتیں۔

وشو بھارتی یونیورسٹی کے راجدیپ سنہا، اناپورنا سنہا داس کی تحقیق ہے کہ مغل ہندوستان میں، شاہی خواتین کو بہت سے قانونی حقوق اور غیر معمولی اختیارات حاصل تھے۔ انھیں فرمان، حکم، نشان، پروانوں جیسی بہت سی سرکاری دستاویزات جاری کرنے کا حق حاصل تھا۔

شاہ جہاں کے دور حکومت میں شاہی مہر ملکہ ممتاز محل کو سونپی گئی۔ ممتاز محل کی وفات کے بعد مہر بیگم صاحبہ یعنی بیٹی جہاں آرا کو دی گئی۔

جہانگیر کی ملکہ نور جہاں شہنشاہ کے ساتھ جھروکا درشن میں بھی دکھائی دیتیں۔ اس طرح انتظامیہ عملی طور پر نور جہاں کے ہاتھ میں آگئی اور ریاست سے متعلق کوئی بھی اہم فیصلہ ان کی رضامندی کے بغیر نہیں لیا جا سکتا تھا۔

شاہی فرامین پرجہانگیر کے ساتھ نور جہاں کی مہر اور دستخط بھی ثبت ہوتے تھے۔

جہانگیر کے زمانے کے چاندی اور سونے کے سکوں پر نورجہاں کا نام بھی کندہ کیا جاتا تھا۔ اس دور کے ایک بڑے سکے پر یہ شعر کندہ ہے۔

بحکم شاہ جہانگیر یافت صد زیور

بنام نور جہاں بادشاہ بیگم ، زر

جرمن مستشرق این میری شمل نے جہانگیر کے یہ الفاظ لکھے ہیں: ’میں نے کاروبارِ حکومت نورجہاں کے حوالے کردیا ہے؛ مجھے ایک سیر شراب اور آدھ سیر گوشت کے علاوہ کچھ نہیں چاہیے۔‘

مگر مبصر الیگزینڈر ڈاؤ کا کہنا ہے: ’نورجہاں نے تمام پابندیوں اور رسم و رواج کو توڑا اور جہانگیر کی کمزوری سے زیادہ اپنی صلاحیت سے اقتدار حاصل کیا۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں