مودی کے ہندوستان میں اب شہر بھی غیرمحفوظ، غازی پور، لکھنؤ سمیت مسلم شناخت والے شہروں کے نام پھر سے تبدیل کرنے کی کوششیں

نئی دہلی ( آن لائن) بھارتی حکمران جماعت کے رکن پارلیمنٹ سنگم لال گپتا نے وزیراعظم نریندر مودی کو خط لکھا ہے جس میں شہروں کے مسلم نام بدل کر ہندو نام دینے کی تجویز دی گئی ہے۔

نجی ٹی وی ایکسپریس نیوز کے مطابق عالمی میڈیا سوال اٹھا رہا ہے کہ بھارت میں انتہا پسندی کبھی ختم ہو گی بھی یا نہیں، بھارت میں مودی سرکار مسلم تشخص مسخ کرنے کی راہ پر مسلسل گامزن ہے۔ ہندوتوا کے پیرو کاروں نے نفرت کی آگ میں شہروں کو بھی نہیں بخشا۔

بھارتی رکن پارلیمنٹ سنگم لال گپتا نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی، ہوم منسٹر امت شاہ اور یوگی ادیاناتھ کو خط لکھا ہے جس میں مسلم ثقافت کے مرکز شہر لکھنؤ کا نام تبدیل کر کے لکشمن پور یا لکھن پور رکھنے کی تجویز دیدی۔ صرف یہی نہیں غازی پور کا نام بدل کر وشوا مترا نگر اور بہرائچ کا نام سلدیو نگر رکھنے کی بھی تجویز دی گئی ہے۔

واضح رہے کہ 28 لاکھ کا شہر لکھنؤ 29 فیصد مسلمان اور دیگر اقلیتیوں پر مشتمل ہے، برصغیر کی تاریخ اس شہر کی ثقافت سے متاثر ہے جس میں اسلام کی خوشبو رچی بسی ہے۔ حد یہ ہے کہ اس  شہر کا نام تبدیل کرنے کیلئے ہندوتوا کے پیروکاروں کی طرف سے مظاہرے کئے جا رہے ہیں۔

ماضی میں بھی مودی سرکار کئی شہروں کے نام ہندو طرز پر تبدیل کر چکی ہے۔ 2018 میں معروف مسلم شہر الہ آباد کا نام بدل کر پرایا گراج ، 2021 میں ہوشنگ آباد کا نام نرمدہ پورم رکھ دیا گیا جبکہ 2022 میں عثمان آباد کا نام دراشیو رکھ دیا گیا عالمی میڈیا میں بھارتی انتہاپسندی پر پہلے ہی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان سطحی اقدامات سے کیا مسلم تشخص برصغیر کی تاریخ سے ختم کیا جا سکتا ہے، اس کا جواب یقینا نہیں میں ہے کیونکہ تاریخ کو کوئی نہیں مٹا سکتا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں