’سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالر‘، القاعدہ کے نئے رہنما سیف العدل کون ہیں؟

مصری فوج کے سابق افسر سیف العدل جو بعدازاں القاعدہ سے منسلک ہوئے، کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ وہ اب عسکریت پسند گروپ کے ’متفقہ‘ رہنما کے طور پر کام کر رہے ہیں۔

برطانوی خبر رساں روئٹرز نے اقوام متحدہ کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ القاعدہ کی جانب سے ابھی تک ایمن الظواہری کے جانشین کے لیے نام سامنے نہیں آیا ہے۔ ان کو پچھلے سال کابل میں امریکہ نے میزائل کا نشانہ بنایا تھا، جو 2011 میں القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد سے تنظیم کے معاملات دیکھ رہے تھے۔

اگرچہ امریکہ کے انٹیلی جنس اہلکار نے جنوری میں کہا تھا کہ ایمن الظواہری کے جانشین کا معاملہ ابھی تک واضح نہیں ہو سکا ہے تاہم اقوام متحدہ کی رپورٹ میں گروپ کی جانب سے ممکنہ خطرات کا اندازہ لگایا گیا ہے۔

’نومبر اور دسمبر کے درمیان ہونے والی بات چیت میں زیادہ تر رکن ممالک نے موقف اختیار کیا کہ سیف العدل پہلے سے ہی ’ڈی فیکٹو اور بلامقابلہ‘ لیڈر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔‘

امریکہ نے ان کے سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالر مقرر کی تھی۔

القاعدہ کے نیٹ ورک کے حوالے سے معلومات رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایمن الظواہری کی ہلاکت کے بعد تنظیم پر دباؤ پڑا تھا کہ کسی ایسے لیڈر کو منتخب کیا جائے جو تنظیم کے نیٹ ورک اور مہلک آپریشنز کو چلا سکے۔

اپنے پیشرو کے برعکس سیف العدل کا معاملہ کچھ مختلف دکھائی دے رہا ہے کیونکہ ایمن الظواہری ویڈیوز جاری کرتے رہتے تھے جن میں خاص طور پر امریکہ کو دھمکیاں دی جاتی تھیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ سیف العدل نے پس منظر میں رہتے ہوئے حملوں کی منصوبہ بندی کرتے رہے اور القاعدہ کو دنیا کا خطرناک ترین گروپ بنانے میں مدد دی۔

سیف العدیل پر 1998 میں تنزانیہ اور کینیا میں امریکی سفارت خانوں پر بم حملوں میں کردار پر امریکی عدلیہ نے فرد جرم عائد کی تھی۔ ان حإلوں میں 224 شہری ہلاک اور پانچ ہزار سے زائد زخمی ہوئے تھے۔

امریکی خفیہ ایجنسی ایف بی آئی کی ’موسٹ وانٹڈ‘ فہرست میں سیف العدل کی چند تصویریں موجود ہیں جن میں ایک بلیک اینڈ وائٹ تصویر بھی شامل ہے۔

امریکی حکام کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ سیف العدل افریقہ میں ہونے والے آپریشنز کے علاوہ امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے قتل میں بھی ملوث تھے جن کو پاکستان میں 2002 میں قتل کیا گیا تھا۔

امریکہ دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ سیف العدل ایران میں ہیں اور ریوارڈز فار جسٹس پروگرام نے ان کے بارے میں اطلاع دینے والے کے لیے ایک کروڑ ڈالر انعام کا اعلان کیا ہے۔

اس کی جانب سے سیف العدل کو القاعدہ کی قیادت کونسل کا رکن اور ملٹری کمیٹی کا سربراہ بتایا گیا ہے۔

ریوارڈز فار جسٹس پروگرام کی ویب سائٹ پر دی گئی معلومات میں بتایا گیا ہے کہ افریقہ میں بم دھماکوں کے بعد مصری فوج کے سابق لیفٹیننٹ کرنل سیف العدل جنوب مشرقی ایران منتقل ہو گئے تھے جہاں وہ ملک کی پاسداران انقلاب فورس کی حفاظت میں رہے۔

ایران کی جانب سے 2003 میں ان سمیت القاعد کے دیگر عہدیداروں کو گھروں پر نظربند کر دیا گیا تھا اور بعدازاں یمن میں اغوا ہونے والے ایرانی سفارت کار کے بدلے میں انہیں اور دوسرے چار افراد کو رہا کر دیا گیا تھا۔

ایران کے مشن برائے اقوام متحدہ نے بدھ کو اپنے آفیشل ٹوئٹر ہینڈل سے سیف العدل کے ایران میں ہونے کی تردید کی ہے۔

’اس میں کوئی صداقت نہیں کہ القاعدہ کے نئے لیڈر ایران میں ہیں۔ یہ غلط معلومات ممکنہ طور پر دہشت گردی سے نمٹنے کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔‘

ایف بی آئی کے سابق سپیشل ایجنٹ علی سوفان جو القاعدہ کے ساتھ کام کرنے والوں کا پتہ لگاتے رہے ہیں، نے سیف العدل کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’ان کے نام کا مطلب ’انصاف کی تلوار‘ ہے۔ وہ سپاٹ چہرہ رکھنے والے ایک ہوشیار انسان ہیں اور ان کا اصل نام محمد صلاح الدین زیدان ہے۔‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ سیف العدل کو 1981 میں صدر انور السادات کے قتل کے بعد بھی شبہے میں گرفتار کیا گیا تھا۔ انور سادات کو آرمی پریڈ کے دوران قتل کر دیا گیا تھا اور وہ اس وقت ٹی وی پر بھی نشر ہو رہی تھی۔

سیف العدل القاعدہ کے پرانے رہنماؤں میں سے ایک ہیں اور کئی عشروں تک مرکزی کمانڈ کے قریب رہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ انہیں مشرق وسطٰی، افریقہ اور ایشیا کی دور دراز فرنچائزز کے لیے سٹریٹیجک رہنمائی کے اہداف سونپے جائیں گے جو اپنے طور پر کام چلا رہی ہیں۔

سیف العدل نے 90 کی دہائی میں سوڈان، پاکستان اور افغانستان میں تنظیم کے ٹریننگ کیمپ بنائے تھے۔

انہوں نے موغادیشو میں امریکی ہیلی کاپٹروں پر حملے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ 1993 میں ہونے والے اس واقعے میں 18 امریکی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔

اس کے بعد صومالیہ سے امریکہ اور اقوام متحدہ کی امن فوج نکلنے کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔

ایف بی آئی کے مطابق سیف العدل انتہائی مطلوب دہشت گردوں کی فہرست میں شامل ہیں اور ان پر امریکی شہریوں کے قتل اور عمارتوں پر حملوں کی سازش کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔

تل ابیب یونیورسٹی کے شعبہ سلامتی سے منسلک یورم سویٹزر کا کہنا ہے کہ ’وہ (سیف العدل) دلیر، پیشہ ور اور سفاک شخص ہیں۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں