برطانیہ کی سب سے مہنگی دوا صرف ایک بہن کی جان بچا پائی

وراثت میں ملنے والی ایک نایاب طبی حالت سے نمٹنے کے لیے زندگی بچانے والی نئی جین تھراپی کے ذریعے پہلی مرتبہ ایک ننھی بچی کا علاج کیا گیا ہے۔

ٹیڈی شا کی بروقت تشخیص ہوئی کیونکہ اس کی بڑی بہن نالہ میں علامات ظاہر ہوئی تھیں لیکن نالہ کے علاج میں بہت دیر ہو چکی تھی، جو اب شدید بیمار ہے۔

دونوں بچیوں کو ایم ایل ڈی ہے، جو دماغ اور اعصابی نظام کو شدید نقصان پہنچاتا ہے۔

اس طبی حالت کے ایک بار کے علاج پر 28 لاکھ پاؤنڈ سے زیادہ کی لاگت آتی ہے اور یہ برطانیہ کے سرکاری محکمۂ صحت یا این ایچ ایس کے لیے منظور شدہ اب تک کی سب سے مہنگی دوا ہے۔

ذرا تصور کریں کہ کسی کی دو بیٹیاں ایک تباہ کن جینیاتی حالت میں مبتلا ہوں لیکن ان میں سے صرف ایک کو بچایا جا سکتا ہو۔

تین سالہ نالہ اور ٹیڈی، جس کی عمر 19 ماہ ہے، دونوں کو ایم ایل ڈی یعنی میٹاکرومیٹک لیوکوڈیسٹروفی ہے۔

اس مہلک جینیاتی بیماری میں مبتلا بچے بظاہر صحت مند پیدا ہوتے ہیں لیکن ایم ایل ڈی آہستہ آہستہ دماغ اور جسم پر حملہ آور ہوتا ہے۔

نالہ کے بیمار ہونے سے پہلے، وہ بالکل عام سی بچی تھی۔

اس کے والد جیک کہتے ہیں ’وہ ہمیشہ گاتی، ناچتی اور ہر جگہ گھومتی رہتی تھی، ہمیشہ ہنستی رہتی تھی، ایک شرارتی سی لڑکی۔‘

لیکن صرف ایک سال پہلے نالہ کا چلنا دھیرے دھیرے ناہموار ہوتا گیا اور وہ اکثر گرنے لگی۔ وہ لرزنے لگی تھی۔

اس کے والدین 32 سالہ ایلی، 29 سالہ جیک بہت زیادہ فکر مند ہو گئے۔ ایلی کو یقین تھا کہ نالہ کے دماغ میں رسولی یا برین ٹیومر ہے۔

ابتدائی طور پر ڈاکٹروں نے انھیں یقین دلایا کہ کچھ بھی غلط نہیں ہے۔ لیکن پھر، پچھلے سال اپریل میں جیک اور ایلی نالہ کو ہسپتال لے گئے جہاں اس کا ایم آر ائی سکین ہوا۔ پینتالیس منٹ بعد ممکنہ تشخیص ہوئی۔

جب ڈاکٹر نے کہا کہ ’یہ دماغ کا ٹیومر نہیں ہے، میں تقریباً خوشی سے جھوم گئی۔‘

لیکن جب ڈاکٹر نے میٹاکرومیٹک لیوکوڈیسٹروفی کا ذکر کیا تو ان کا سکون ختم ہو گیا۔ اس کے بارے میں انھوں نے پہلے کبھی نہیں سنا تھا۔ جب وہ کمرے سے نکلیں تو جیک نے اس اصطلاح کو گوگل کیا۔

ایلی کہتی ہیں ’میں ان کے چہرے سے بتا سکتی تھی کہ یہ اچھی خبر نہیں تھی‘۔

ایم ایل ڈی ایک ناقص جین کی وجہ سے ہوتا ہے جس کا مطلب ہے کہ متاثرہ بچے اسرا (ARSA) نامی ایک اہم انزائم پیدا نہیں کر سکتے یعنی وہ پروٹین جو جسم میں میٹابولزم کے کام میں مدد کرتا ہے۔

نتیجے کے طور پر سلفیٹائڈز نامی چربی والے کیمیکل بن جاتے ہیں، یہ آہستہ آہستہ دماغ اور اعصابی نظام کے خلیوں کے ارد گرد حفاظتی تہہ کو تباہ کر دیتے ہیں، جس سے تباہ کن بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔

بچے چلنے، بات کرنے یا کھانے کی صلاحیت کھو دیتے ہیں اور آخر کار دیکھنے یا سننے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتے ہیں۔

چونکہ ایلی اور جیک دونوں میں ناقص جین موجود تھے اس لیے انھیں بتایا گیا کہ نالہ کی چھوٹی بہن ٹیڈی میں بھی ایم ایل ڈی ہونے کے امکانات چار میں سے ایک ہیں۔

جیک کہتے ہیں’میں نے سوچا یہ دوبارہ نہیں ہو سکتا، ہم اتنے بدقسمت نہیں ہو سکتے، لیکن جب ہمیں پتہ چلا تو ہمارا دل ٹوٹ گیا۔‘

لیکن دس ماہ کے ٹیڈی کے لیے امید تھی۔ اس بیماری نے ابھی تک اسے متاثر نہیں کیا تھا اور اس لیے وہ این ایچ ایس سے ایک نئی زندگی بچانے والی جین تھراپی کے ساتھ علاج کرنے والی پہلی مریض بن گئی، جسے لِبمیلڈی کہا جاتا ہے، جو بیماری کے ناقابل تلافی نقصان پہنچانے سے پہلے دی جاتی ہے۔

نالہ میں ایم ایل ڈی کی شناخت بہت دیر سے ہوئی۔ وہ پہلے ہی چلنے یا بات کرنے سے قاصر ہے، اور اسے ٹیوب سے خوراک دی جاتی ہے۔

ایلی کہتی ہیں کہ ’جب انھوں نے ہمیں بتایا کہ ٹیڈی کا علاج دستیاب ہے تو یہ ایک تکلیف دہ خبر تھی کیونکہ نالہ کی مدد نہیں کی جا سکتی۔‘

وہ کہتی ہیں کہ وہ بیک وقت اداس اور ’انتہائی شکرگزار‘ ہیں۔

جیک کہتے ہیں’میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ نالہ نے ٹیڈی کی جان بچائی اور میں اس کے بارے میں اسی طرح سوچنا چاہتا ہوں۔

لِبمیلڈی میں ناقص جین کو درست کرنے کے لیے مریض کے اپنے خلیات کو تبدیل کر کے استعمال کیا جاتا ہے۔ جون 2022 میں رائل مانچسٹر چلڈرن ہسپتال میں ایک مشین کی مدد سے ٹیڈی کا خون نکال کر فلٹر کیا گیا، تاکہ سٹیم سیلز کا ایک بیگ اکٹھا کیا جا سکے۔ یہ عمل ڈائلیسس کی طرح لگتا ہے۔

ان خلیات کو اٹلی کے شہر میلان بھیجا گیا، جہاں سائنسدانوں نے ٹیڈی کے ناقص جین کے کام کرنے والے ورژن میں ایک بے ضرر وائرس کا استعمال کیا، جو سٹیم سیلز میں گم شدہ انزائم کو پیدا کرتے ہیں۔ اس کے بعد جین سے درست شدہ سٹیم سیلز کو پھر ٹیڈی کے جسم میں داخل کرنے کے لیے مانچسٹر بھیج دیا گیا۔

ٹیڈی اور ان کی والدہ علاج کے دوران ہسپتال منتقل ہو گئے جبکہ جیک جو پیشے کے لحاظ سے ایک بڑھئی ہیں، نارتھمبرلینڈ میں نالہ کی دیکھ بھال کر رہے تھے۔

متبادل خلیات دیے جانے سے پہلے ٹیڈی کو اپنے بون میرو میں موجود ناقص سٹیم سیلز کو ختم کرنے کے لیے کیموتھراپی کرانا پڑی۔

اگست میں، ہم ٹیڈی کی لِبمیلڈی تھراپی کرانے کے بعد مانچسٹر واپس آئے۔

اپنے ہسپتال کے کمرے میں، ٹیڈی نے، جو اس وقت 14 ماہ کی تھی پاؤں پاؤں چلنا شروع کیا۔

ایلی کہتی ہیں ’جو کچھ اس پر گزری ہے اس کے تناظر میں وہ بالکل ٹھیک ہے ، وہ اب بھی شرارتی چھوٹی سی بچی ہے۔‘

لِبمیلڈی کے جسم میں داخل کیے جانے کے عمل میں ایک گھنٹے سے بھی کم وقت لگا۔ اگلے دنوں میں جین کے بدلے ہوئے خلیے ٹیڈی کے بون میرو کی طرف بڑھ گئے اور وہ انزائم تیار کرنا شروع کر دیا جو پیدائش کے بعد سے غائب تھا۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ وہ واحد علاج ہے جس سے یہ امید ہے کہ یہ ایم ایل ڈی کے لیے مستقل علاج فراہم کرے گا۔

لِبمیلڈی کو ایک برطانوی کمپنی آرچرڈ تھیراپیوٹکس نے تیار کیا تھا۔ اس کے سی ای او اور شریک بانی، بوبی گیسپر نے ممکنہ علاج کے بارے میں تحقیق کرتے ہوئے گریٹ اورمنڈ سٹریٹ ہسپتال میں کئی سال بطور مشیر گزارے۔

وہ کہتے ہیں ’دنیا میں ایک نئی دوا لانا جو ممکنہ طور پر ان تباہ کن بیماریوں کا علاج کر سکتی ہے ناقابل یقین حد تک فائدہ مند ہے، اس طرح کی دوا تیار کرنا ایک بہت طویل سفر تھا۔‘

لِبمیلڈی کو تیار ہونے میں تقریباً 20 سال لگے، پہلی انسانی آزمائش 2010 میں ہوئی تھی اور اسے دسمبر 2020 میں یورپی یونین کی منظوری ملی اور اب این ایچ ایس کے ذریعے دستیاب ہے۔

ایم ایل ڈی کے علاج میں مہارت رکھنے والے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ لِبمیلڈی گیم چینجر ہے۔

ٹیڈی کے علاج میں شامل ماہرینیں سے ایک پروفیسر سائمن جونز کہتے ہیں ’یہ واقعی ایک بڑی پیش رفت ہے‘۔

’ہمارے پاس کئی دہائیوں سے اس حالت والے خاندانوں کو پیش کرنے کے لیے تقریباً کچھ بھی نہیں تھا۔ کئی برس کی خوفناک نیوروڈیجینریٹو بیماری کے بجائے اب ہمارے پاس مکمل اور صحت مند زندگی دینے کی کی صلاحیت ہے۔‘

اب جبکہ علاج موجود ہے تو اس مرض کی بروقت تشخیص اور بھی ضروری ہو گئی ہے۔

ٹیڈی کے والدین، ایم ایل ڈی سے متاثر کئی خاندان اور اس مرض کا علاج کرنے والے ڈاکٹر آج کل یہ مہم چلا رہے ہیں کہ برطانیہ میں پیدائش کے وقت ہر بچے کا ایم ایل ڈی کا ٹیسٹ کیا جائے۔ اس کے لیے بچے کی ایڑھی سے باریک سرنج سے خون لیا جاتا ہے جسے نو مختلف جینیاتی امراض کی تشخیص کے لیے ٹیسٹ کیا جاتا ہے، لیکن ان میں ابھی تک ایم ایل ڈی شامل نہیں ہے۔

اس حوالے سے ڈاکٹر گیسپر کا کہنا ہے کہ ’ہم یہ ٹیسٹ نہ کر کے اپنے بچوں کے ساتھ اچھا نہیں کر رہے کیونکہ اگر آپ پیدائش کے وقت تشخیص کر لیتے ہیں تو ان طبی مسائل سے بچا جا سکتا ہے۔

توقع کی جاری ہے کہ آنے والے دنوں میں ہر سال برطانیہ میں صرف سات یا آٹھ بچوں کو لبمیڈی کی سہولت دستیاب ہو گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایم ایل ڈی بہت ہی کم بچوں کو ہوتی ہے اور اکثر اس کی تشخیص جلد نہیں ہو پاتی۔

برطانیہ میں صحت عامہ کا جائزہ لینے والے ادارے ’این آئی سی ای‘ کے مطابق اس نے اب تک جن ادویات کا جائزہ لیا ہے ان میں سے لبمیڈی سب سے زیادہ مؤثر ثابت ہوئی ہے۔ اور اگرچہ اس کی قیمت بہت زیادہ، یعنی 28 لاکھ پاؤنڈ سے زیادہ ہے، لیکن این ایچ ایس نے یہ علاج کم قیمت پر حاصل کرنے کا ایک خفیہ معاہدہ کر رکھا ہے۔

لبمیڈی کے اتنا مہنگا ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس پر تحقیق اور اسے بنانے میں بہت پیسہ خرچ ہوتا ہے۔

لبمیڈی کے حوالے سے این ایچ ایس کی سبراہ، امینڈا پرچرڈ کہتی ہیں کہ یہ ایک انقلابی علاج ہے جس سے ایم ایل ڈی میں مبتلا بچوں اور ان کے خاندانوں کو ’بہت زیادہ امید ملتی ہے۔‘

’اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹیڈی جیسے بچے ایسے کام کر سکتے ہیں جو باقی بچے کرتے ہیں، جیسے سکول جانا اور دوستوں کے ساتھ کھیلنا کودنا۔‘

جیک گٹار بھی بجاتے ہیں اور انھوں نے اپنی بیٹی کے لیے ایک گانا بھی بنایا ہے جس کا عنوان ہے ’تم آرام سے سو جاؤ‘۔ انھیں امید ہے کہ یہ گانا اس مرض کے بارے میں آگاہی پیدا کرے گا اور اگر اس سے کچھ پیسہ بنتا ہے تو وہ یہ پیسہ ’ایم ایل ڈی سپورٹ ایسوسی ایشن‘ نامی تنظیم کو دے دیں گے۔

اگرچہ ابھی تک برطانیہ میں پیدائش کے وقت ایم ایل ڈی کا ٹیسٹ نہیں کیا جاتا، لیکن اس حوالے سے پانچ ممالک میں تجرباتی بنیادوں پر کام شروع ہو چکا ہے، جن میں جرمنی بھی شامل ہے۔ جرمنی میں ایک بچے میں پیدائش کے و قت اس کی تشخیص ہو چکی ہے۔

اس کے علاوہ رواں برس انگلینڈ میں بھی ایک پائلٹ پراجیکٹ شروع کیا جا رہا ہے جس میں ایک لاکھ نوزائدہ بچوں کا ٹیسٹ کیا جائے گا۔

کیا اس طریقہ علاج سے ایم ایل ڈی کے علاوہ دیگر امراض کا علاج بھی کیا جا سکتا ہے؟

اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ ہاں ایسا ممکن ہے۔ رائل مانچسٹر چلڈرن ہاسپٹل میں دو اور امراض کے علاج کے لیے بھی جین تھراپی کو آزمایا جا رہا ہے، جنہیں سینفی لِپو اور ہنٹر سینڈروم کہا جاتا ہے۔

اس حوالے سے پروفیسر راب وائن کہتے ہیں کہ ایسے بہت سے بچے جن کے بون میرو ٹرنسپلانٹ کیے جا رہے ہیں انہیں بھی جینیاتی امراض کا سامنا ہے۔ پروفیسر وائن کا خیال ہے کہ سٹیم سیلز میں جینیاتی تبدیلی کے ذریعے کیا جانے والا علاج اس شعبے میں بہت بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔

نالہ کے والدین کہتے ہیں کہ اگر تمام نوزائدہ بچوں کا ایم ایل ڈی کا ٹیسٹ شروع ہو جاتا ہے تو یہ قدم نالہ کے لیے موزوں خراج تحسین ہوگا۔

ایلی کی بقول ’مجھے یہ جان کر اچھا لگے گا کہ اگر کوئی اور بچہ ایم ایل ڈی کے ساتھ پیدا ہوتا ہے تو اس کی تشخیص اتنی جلدی ہو جائے کہ اسے بچایا جا سکے۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں