سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجاب اور خیبرپختونخوا انتخابات پر ازخودنوٹس کیس کا محفوظ فیصلہ سنا دیا۔سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں 90 روز میں کرانے کا حکم دیدیا،چیف جسٹس آف پاکستان نے کہاہے کہ الیکشن کمیشن 90 روز میں انتخابات کرائے گا،فیصلہ تین دو سے سنایا گیا،جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کا اختلافی نوٹ سامنا آیا، بنچ کے 2 ممبران نے درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض کیا۔
سپریم کورٹ نے کہاکہ آئین60 اور90 روز کی بات کرتا ہے، پنجاب اسمبلی14 جنوری اور کے پی اسمبلی 18 جنوری کو تحلیل ہوئی ،دونوں صوبوں میں انتخابات 90 روز میں ہونے ہیں، گورنر اسمبلی تحلیل کرے تو90 روز میں الیکشن لازمی ہے،عام انتخابات کا طریقہ کار مختلف ہوتا ہے،خیبرپختونخواسمبلی گورنر کی منظوری سے تحلیل ہوئی،گورنرآرٹیکل 112 کے تحت وزیراعلیٰ کی ایڈوائس پر اسمبلی تحلیل کرتے ہیں،گورنر کو آئین کے تحت 3 صورتوں میں اختیارات دیئے گئے ہیں۔
سپریم کورٹ نے کہاکہ صدر کی جانب سے کے پی میں تاریخ دینے کا اقدام کالعدم قرار دیدیاگیا،کے پی میں انتخابات کی تاریخ دینا گورنر کی ذمہ داری ہے، پنجاب میں انتخابات کی تاریخ دینا صدر کی ذمہ داری ہے،گورنر فیصلہ نہ کرے تو صدر تاریخ دے سکتا ہے۔
فیصلہ میں کہا گیاہے کہ پنجاب اسمبلی گورنر کے دستخط نہ ہونے پر 48 گھنٹے میں خود تحلیل ہوئی،گورنر کے پی نے الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہ کرکے آئینی ذمہ داری سے انحراف کیا،الیکشن کمیشن فوری طور پر صدر مملکت کو انتخابات کی تاریخ تجویز کرے۔
سپریم کورٹ نے حکومتی اداروں کو الیکشن کمیشن کو سکیورٹی سمیت ہر طرح کی امداد یقینی بنانے کا حکم دیدیا۔
سپریم کورٹ نے صدر مملکت کا پنجاب میں انتخابات کی تاریخ دینا درست قراردددیدیا، عدالت نے کہاکہ صدر الیکشن کمیشن کی مشاورت کے ساتھ تاریخ کا اعلان کریں ، عدالت نے فیصلہ میں کہاصدر مملکت ہی الیکشن کی تاریخ دیں گے،ہر ممکن حد تک 90 دن میں انتخابات یقینی بنائے جائیں ، الیکشن ایکٹ کے سیکشن 57 اور58 کو مدنظر رکھ کر تاریخ دی جائے،گورنر خیبرپختونخوافوری طور پر انتخابات کی تاریخ دیں،تمام وفاقی و صوبائی ادارے الیکشن کمیشن کی معاونت کریں۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ وفاق کی ڈیوٹی بھی ہے کہ وفاق کی ایگزیکٹو اتھارٹیز الیکشن کمیشن کی مدد کرے گا،الیکشن کمیشن کو جنرل الیکشن میں تمام سہولتیں قائم مقام حکومتیں فراہم کرنے کی پابندہیں ۔
گزشتہ روزپنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کی تاریخ پر سپریم کورٹ از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا تھا کہ موجودہ حالات میں 90 روز میں الیکشن ضروری ہیں۔
کیس کی سماعت کے دوران عدالتی حکم پر وکلا ءنے قائدین سے مشاورت کی، پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے پارٹی مؤقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کی تاریخ مقرر کرنا سیاسی جماعتوں کا کام نہیں ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) کے وکیل منصور اعوان نے کہا کہ پارٹی قیادت سے بات چیت کر لی ہے، مزید مشاورت کیلئے وقت درکار ہوگا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ نے 2 ہفتے نوٹس دینے میں لگائے، لاہور ہائیکورٹ میں بھی معاملہ التوا ءمیں ہے، سپریم کورٹ میں آج مسلسل دوسرا دن ہے اور کیس تقریباً مکمل ہو چکا ہے، عدالت کسی فریق کی نہیں بلکہ آئین کی حمایت کر رہی ہے۔
دوران سماعت فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ عدالت ہائی کورٹس کو جلدی فیصلے کرنے کا حکم دے سکتی ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت معاملہ آگے بڑھانے کیلئے محنت کر رہی ہے، ججز کی تعداد کم ہے پھر بھی عدالت نے ایک سال میں 24 بڑے کیسز نمٹائے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ دینا صدر کی صوابدید ہے، اسمبلی مدت پوری ہو تو صدر کو فوری متحرک ہونا ہوتا ہے، فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ سپریم کورٹ رولز میں بینچ تشکیل کا طریقہ کار موجود ہے، سپریم کورٹ رولز کے مطابق یہ آگاہ کرنا ضروری ہے کہ معاملہ ہائی کورٹ میں ہے یا نہیں۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ درخواست گزار نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہوا تو بتانا ضروری ہے ۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سپریم کورٹ سماعت اصل سوال الیکشن کی تاریخ دینے کا ہے کہ کون دے گا، 14 جنوری سے کسی کو فکر نہیں کہ تاریخ کون دے گا، پارلیمنٹ چاہتی تو کچھ کر سکتی تھی، جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ میں سینیٹر ہوں ابھی سینیٹ اجلاس نہیں ہو رہا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ 3 ہفتے سے ہائیکورٹ میں صرف نوٹس ہی چل رہے ہیں، اعلیٰ عدلیہ کو سیاسی تنازعے میں نہیں پڑنا چاہیے، صرف مخصوص حالات میں عدالت از خود نوٹس لیتی ہے، گزشتہ سال 2، اس سال صرف ایک از خود نوٹس لیا، سب متفق ہیں کہ آرٹیکل 224 کے تحت 90 روز میں الیکشن لازم ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت تلاش میں ہے کہ الیکشن کی تاریخ کہاں سے آنی ہے؟، مستقبل میں الیکشن کی تاریخ کون دے گا اس کا تعین کرنا ہے، صرف قانون کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں، عدالت کسی سے کچھ لے رہی ہے نا دے رہی ہے۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ جوڈیشل ایکٹوازم میں تحمل پر عدالت کا مشکور ہوں، فاروق ایچ نائیک کے دلائل مکمل ہونے پر( ن) لیگ کے منصور اعوان نے دلائل شروع کیے۔
وکیل مسلم لیگ( ن) منصور اعوان نے کہا کہ 1975 میں آرٹیکل 184/3 کی پہلی درخواست آئی تھی، عدالت نے تمام اعتراضات مسترد کرتے ہوئے مقدمہ سنا تھا، ہائی کورٹ کا فیصلہ آ چکا جو سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں ہے۔
منصور اعوان نے کہا کہ اگر عدالت کہتی ہے کہ گورنر تاریخ دے گا تو کوئی مسئلہ نہیں، عدالت کسی اور نتیجے پر گئی تو ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم ہو جائے گا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ موجودہ حالات میں مقدمات 2 مختلف ہائی کورٹس میں ہیں، ایسا بھی ممکن ہے دونوں عدالتیں متضاد فیصلے دیں، وقت کی کمی کے باعث معاملہ اٹک سکتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ بھی ممکن ہے ہائی کورٹس کا فیصلہ ایک جیسا ہو اور کوئی چیلنج نہ کرے، اس پر وکیل( ن) لیگ نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے 2آئینی اداروں کو مشاورت کا کہا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اصل معاملہ وقت کا ہے جو کافی ضائع ہو چکا، 90 دن کا وقت گزر گیا تو ذمہ دار کون ہو گا، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں کیس زیادہ تاخیر کا شکار نہیں ہو رہا، وکیل( ن) لیگ نے کہا کہ امکان ہے ہائی کورٹس کے فیصلے مختلف ہی آئیں گے۔